انگریز کی نشانی جاگیریں واپس لیں گے

Pakistan

Pakistan

تحریر: ع.م.بدر سرحدی
١٩٦٨ کا واقع ہے میں راولپنڈی جا رہا تھا،، ساتھ ہی سیٹ پر دوسرا مسافر جو یورپ سے آیا تھا،اسنے بتایا کہ ہم تین ہمسفر تھے مجھے پاکستان آنا تھا دوسرے ہندستان جارہے تھے فرانس کے ہوائی پر دو گھنٹے کے لے طیارہ رکا اور ہم گھومنے کے لئے باہر نکلے جو بیگ وغیرہ تھے وہیں ہال میں رکھے لیکن ایک نے کہا یار ہم تو باہر جا رہے ہیں اور یہ سامان …تو میں کہا کوئی فکر کی بات نہیں یہ ہندستان یا پاکستان نہیں جہاں واپسی پریہ گم ہو جائیں گے ،ڈیڑھ گھنٹہ تک گھوم پھر کے آئے سامان جیسے رکھا تھا ویسے ہی پڑا تھا …یہ بہت پرانی بات ہے اگرآج کوئی یہ واقع سنائے تودہشت گردی کے حوالے سے ،ہوائی اڈے پر انتظامیہ کی دوڑیں لگ جاتی اور ہوائی ا ڈا خالی ہو جاتا …وہاں تو کوئی اسلامی نظام نہیں، ہماری جہادی تنظیموں کے مطابق تو وہاں کفر کا نظام ہے جسے ختم کرنا ہے مگر وہاں تو اس کفر کے نظام میں تارکین وطن آج بھی بہتر اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ یہاں ملک میں کروڑوں انسان اس کے لئے ترستے ہیں ،مغربی ملکوں کی سیر کرنے والے سفرناموں وہ کچھ بتاتے ہیں ،جو ہم یہاں تصور میں بھی نہیں لا سکتے۔

جمعہ ٢١ نومبر ٢٠١٤مینا رپاکستان کے سائے میں جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع عام سے اپنے افتتاحی خطاب میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ اگلے الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیا د پر کرائے جائیں سودی نظام ختم کیا جائے ،انگریزوں کی دی ہوئی جاگیریں واپس لی جائیں..نیز انہوں نے کہا ہماری حکومت بنی تو بے روز گا رو ںکوالاؤنس، مزدوروں کو کارخانوں کے منافع میں ،اور کسانوں کو زمین کی پیداوار میں حصہ دیں گے،٣٠ ہزار سے کم آمدن والوں کوسستا راشن ملے گا تعلیم عام کریںگے ،یکساںنظام تعلیم،زریعہ قومی زبان ہوگا ،حکومت ،دل ،گردہ ،کینسر سمیت پانچ بیماریوں کا مفت علاج کرے گی ،اقتدار میں آکر عام آدمی کو وی آئی پی اور وی آئی پیز کو عام آدمی بنائیں گے ،بزرگوں کو اولڈ ایج سوشل الاؤنس دیں گے ،مگر یہ تو سب کچھ مغرب کے طاغوتی نظام میں عوام کو حاصل ہے ۔جناب سراج الحق نے انتہائی خوبصورت جامع پروگرام عوام کے سامنے رکھا ان کے خطاب کا لب لباب یہ تھا کے وہ ایسا اسلامی فلاحی نظام لائیں گے ،جس سے امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے گا ،دولت یا وسائل کی نا منصفانہ تقسیم ختم ہو جائے گی اور عام آدمی بھی خوشحال ہوگا ، اُن کا خطاب تصویر کا ایک رخ تھا ،دو اعلان بڑے اہم تھے …ایک تو یہ کہ ہاری کو زمین کی پیداوار میں حصہ،اور دوسرے مزدوروں کو کار خانوں کے منافع میں حصہ دیںگے، دوسراجاگیرداروں صنعت کاروں کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انگیریز کی دی ہوئی جاگیریں جاگیرداروں سے واپس لی جائیں ،مگر یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو گا ،کہ ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ جاگیروں کے مالک جاگیردار ،وڈیرے ، اور نواب اتنی آسانی سے محض سراج الحق کے مطابہ پر اپنی جاگیریں چھوڑ دیں گے۔

Jamaat e Islami

Jamaat e Islami

البتہ امیر جماعت اسلامی کے اس خطاب پر جلسہ گاہ میں بیٹھے ہزاروں سامئین کی تالیوں کی گونج سے فضا میں ہلچل سی مچ گئی ہوگی کہ بالکل ایک انہونی ڈیمانڈکر رہے ہیں انہوں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہا ، مگر دوسرے دن کے سیشن میں جب دنیا ٢١ ویں صدی میں پہنچ گئی مگر وہ اسے واپس ساتویں صدی میں لے جانا چاہتے ہیں سابق امیر مولانا سید منور حسن نے اپنے خطاب میں کسی لگی لپٹی کے تصویر کا دوسرا رخ دکھا دیا ،داعش اور طالبان سے جماعت کی وابستگی ظاہر کر دی ، انہوں نے کہا جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ معاشرے کے جز ہیں انہیں ترک نہیں کیا جاسکتا ،قتال فی سبیل اللہ کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جا رہا ہے ، لاریب جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا حکم قرآن میں ہے ،مگر انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ملک کے اندر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ واجب ہے،کیا داتا دربار یا عید کی نماز کے مقدس اجتماع میں نہتے معصوم شہریوں کا قتال، جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میںآئے گا … ملک میں فوجی جوانوں کے علاوہ پچاس ہزار سے زائد کلمہ گو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے دہشت گردونے مار دئے کیا ان معصوموں کا قتل فی سبیل اللہ تھا …. مگر سابق امیر منور حسن جماعت اسلامی نے کبھی دہشت گردی کی مذمت نہیں کی ، حالانکہ ایسے قتال کی مذمت کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ مارے جانے والے دہشت گردوں کو شہید قرار دیا …..قتال فی سبیل اللہ جہادی تنظیموں،طالبان اور بین الااقوامی جہادی تنظیم داعش کا ایجنڈا ہے جنہیں بقول منور حسن دہشت گرد کہا جاتا ہے مگر انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا قتال میں اقلیتیں مستثنیٰ ہونگی، کیوںکہ اس اجتماع میں اقلیتی لوگ بھی موجود تھے۔

البتہ سراج الحق کی معتدل پالیسی پر پانی پھیر دیا قتال صرف غیر مسلموں کا ہوگا،بلکہ اعتدال پسند مومن اس کی زد میں آئیں گے، کیونکہ مومن کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور کہ یہ گناہ ہے، اب ظاہر یہ قتال مسلمانوں کا نہیں ہوگا ،جون ٢٠١٤ میں عراق کے صوبہ نینواہ کے شہر موصل میں داعش تنظیم نے اپنا دارالخلافہ قائم کیا ،اور اولیاء کرام کے مزارات اور اہل تشیع کی امام بارگاہوں کو تباہ کیا گیا، مسیحیوں کو ایک مراسلہ کے زریعہ اانتباہ کیا گیا تمارے لئے تین راستے ہیں کھلے ہیں اول یہ کہ اسلام قبول کر لو،دوئم،جزیہ دو اور سوئم مرنے کے لئے رہو،جماعت نے ہمیشہ طالبان کی حمائت کی،اور منور حسن نے اس انتہائی اہم موقع پر اُن کے ایجنڈے کی حمائت کرکے سابق امیر نے جماعت کے ایجبڈے کو بھی واضح کر دیا ہے ،دوسری طرف اقلیتی سکھ اور مسیحی افراد نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے اجتماع میں ملا قات کی ،جبکہ انہوں اپنے خطاب میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی ، مگر مولانا سید منورحسن کے بیان نے اسکی نفی کر دی ، اس اجتماع میں امیر جماعت سراج الحق نے بلند وبانگ دعوے کئے اور سیاست دانوں پر بھی برسے جاگیریں واپس لینے کی بات اور مزدوروں کو کار خانے کی آمدن میں حصہ دلانے کی باتیں اور اسلام آباد کے حکمرانوں پر برسے ،مگر آخری و قت میں ….، اب یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی کہ یہ نورا کشتی تھی۔

جناب سراج الحق نے جاگیرداری اور سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کیا بیشتر سیاسی وعدے ہیں، جنکی تکمیل کے لئے پہلے سے ملکی حالات کسی حد تک ساز گا ر ہوں،ایسے وعدے تو ہر سیاسی پارٹی کے منشور میں ہیں جن کی گردان سیاستدان ہر فرم پر کرتے ہیں،چہرے نہیں نظام بدلو یہ بھی سنتے ہیں مگر …. ملک تو پہلے ہی بحرانوںمیں گھرا ہے…اور ساٹھ فی صد عوام خط افلاس سے نیچے چلے گئے ہیں ….ملک جب اور جس نے ناجائز قابضین سے خدا کی زمین وا گزار کر لی بس وہی دن ہو گا ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا …. ورنہ تو کچھ بھی نہیں ہو گاا ور ہر آنے والا یہی کہے گا بحران اور مسائل وراثت میں ملے ہیں ،گاڑی اسی ڈگر پر چلتی رہے گی، خطِ افلاس سے نیچے جانے والوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی