انتہاپسندی سے نمٹنے میں تربیت یافتہ علماء کا کلیدی کردار

Islam Conference

Islam Conference

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں سالانہ ‘اسلام کانفرنس‘ میں علماء کی تعلیم و تربیت اور مساجد کے نظام میں اصلاحات پر غور کیا جا رہا ہے۔

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ فرانس اور آسٹریا میں حالیہ شدت پسند حملوں کا اثر جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں اور حکومت کے درمیان تعاون پر نہیں پڑے گا۔ وہ منگل کو جرمنی میں سالانہ ‘اسلام کانفرنس‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ”ہم دہشت گردی اور انتہاپسندی کو‘‘ اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔

اس موقع پر انہوں نے مذہبی جنونیت کے خاتمے کے لیے جرمن زبان بولنے والے آئمہ کی تربیت سے متعلق پروگرام کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ جرمن وزارت داخلہ کی فنڈنگ سے شروع کیے جانے والے اس پروگرام سے ملک میں سماجی رواداری کو فروغ حاصل ہوگا۔

اس سال یہ کانفرنس ایک کشیدہ ماحول میں ہو رہی ہے۔ فرانس اور آسٹریا میں حملوں کے بعد ایک بار پھر یورپ میں مسلمان کے کردار پر بحث چھڑ گئی ہے۔ اس بار کورونا وبا کے باعث یہ اجلاس آن لائن ہو رہا ہے، جس میں توجہ کا خاص موضوع جرمنی میں آئمہ کی ٹریننگ ہے۔

کانفرنس میں شامل شرکاء ملک میں اسلامی تعلیم و تربیت پر بحث کریں گے اور تجاویز پیش کریں گے۔ نصاب پر بھی بات ہوگی کہ اس میں کس طرح رواداری اور اعتدال پسند سوچ کو فروغ دیا جائے۔ اس پر بھی غور کیا جائے گا کہ جرمنی کی مساجد میں جرمن زبان کے علاوہ کن زبانوں کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔

اس وقت جرمنی کی مساجد میں کئی امام دیگر ملکوں سے مذہبی تعلیم حاصل کرکے یہاں آتے ہیں۔ ان میں اکثر ترکی جاتے ہیں اور وہاں کی سرکاری ‘دینیت فاؤنڈیشن‘ کے مخصوص نصاب سے مستفید ہوکر یہاں اپنے عقیدے کا پرچار کرتے ہیں۔

لیکن جرمن حکومت کی خواہش ہے کہ آئمہ کی تعلیم و تربیت ملک کے اندر ہی ممکن بنائے جائے تاکہ ان کے نظریات جرمن اقدار سے متصادم نہ ہوں۔

بعض ماہرین کی نظر میں اس کے لیے ضروری ہے کہ جرمنی سے فارغ التحصیل آئمہ کو مساجد میں ملازمت اور عہدے دیے جائیں اور دیگر عبادت گاہوں کی طرح ان مساجد کو مالی طور میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں ان کی مدد کی جائے۔