شدت پسند گروہ داعش کو انصاف کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے؟

Isis

Isis

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) اسلامک اسٹیٹ گروپ کے جرائم سے متعلقہ اقوام متحدہ کی ٹیم کی سربراہ کا سوال ہے کہ اس تنظیم کو انصاف کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے گا۔

عالمی ادارے نے سابق جرمن پراسیکیوٹر کرسٹیان ریشٹر کو ستمبر 2021 میں یو این آئی ٹی اے ڈی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس ٹیم کا مقصد ‘اسلامک اسٹیٹ‘ تنظیم میں شامل ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔

اپنے عروج پر، اسلامک اسٹیٹ، یا آئی ایس کے نام سے جانے جانے والے شدت پسند گروپ کے ہزاروں ارکان تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں 40,000 غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے۔ یہ گروپ عراق اور شام میں تقریباً 100,000 مربع کلومیٹر کے علاقے کا کنٹرول سنبھالے ہوا تھا۔ اس گروپ نے اسلام کا اپنا انتہائی قدامت پسند اور پر تشدد ورژن بنا رکھا تھا۔ داعش نے مقامی اقلیتوں، جیسے عراق کے ایزدیوں اور مسیحیوں سے لے کر اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں مسلمانوں تک کے خلاف متعدد جرائم کا ارتکاب کیا۔ ایزدی برادری پر اس کے حملے کو اقوام متحدہ نے نسل کشی قرار دیا ہے۔

سن 2014 کے بعد سے اس نام نہاد ”خلافت‘‘ میں اغوا، جنسی زیادتیاں اورجنسی حملے، غلامی، بھتہ خوری، قتل اور مالی جرائم روزمرہ کے واقعات تھے۔

آج بھی تقریباً 10,000 جنگجوؤں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آئی ایس گروپ کے ساتھ سرگرم ہیں، لیکن 2017 میں شدت پسندوں کو ان کے مضبوط گڑھ سے پسپا کر دیا گیا تھا۔ بہت سے جنگجو مارے گئے یا قید کر دیے گئے اور اب سوال یہ ہے کہ پکڑے جانے والوں کے خلاف مقدمات کیسے چلائے جائیں۔

کرسٹیان ریٹشر بتاتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیم کے ذریعے داعش کے بین الاقوامی رابطے تلاش کرنے جا رہے ہیں۔ ”یہ صرف عراق کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔ آخرکار، آئی ایس گروپ عراق سے باہر بھی کام کر رہا تھا، مثال کے طور پر، یورپ میں۔‘‘

ابتدا میں خلیجی ممالک کے غیر ملکی عطیہ دہندگان پر آئی ایس گروپ کی مالی معاونت کا شبہ تھا۔ لیکن جب شدت پسند عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قابض ہو گئے تو ان کا زیادہ تر پیسہ ان علاقوں اور وہاں کے مقامی لوگوں سے حاصل ہو رہا تھا جن پر وہ حکومت کرتے تھے۔ ماہرین کا اندازہ ہے 2014 میں اپنی طاقت کے عروج پر، اس گروپ کے پاس دو ارب ڈالرسے زیادہ کے اثاثے تھے۔

’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔

سن 2020 کے آخر میں امریکی حکومت کے اندازے کے مطابق، اس شدت پسند گروپ کے پاس اب بھی تقریباً 300 ملین ڈالر کے اثاثے موجود تھے۔ لیکن ان دنوں جو بھی آمدنی حاصل ہو رہی ہے وہ مجرمانہ سرگرمیوں سے ہوتی ہے۔ اغوا اور بھتہ خوری، خطے میں منشیات کی اسمگلنگ اور یورپ میں انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ لوٹے گئے عراقی یا شامی نوادرات کی غیر قانونی فروخت سے آمدنی حاصل کی جا رہی ہے۔

آئی ایس گروپ نے بظاہر حکام سے بچنے اور رقم منتقل کرنے یا لانڈر کرنے کے لیے کرپٹو کرنسیوں کو بھی استعمال کیا ہے۔

ریٹشر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”دہشت گردی کی مالی معاونت کی چھان بین ضروری ہے کیونکہ اس سے آپ کو اوپر سے نیچے کا منظر نامہ مل جاتا ہے۔اگر آپ پیسے کا پیچھا کرتے ہیں، تو آپ دیکھتے ہیں کہ تنظیم کا ڈھانچا کیا ہے اور آخر میں، آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو واقعی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔‘‘

آئی ایس کے خلاف شواہد
جیسے جیسے اقوام متحدہ کی ٹیم کے پاس آئی ایس کے خلاف شواہد بڑھتے جا رہے ہیں، ریٹشر کا خیال ہے کہ جلد ہی آئی ایس کے ارکان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ایک ”ٹرننگ پوائنٹ‘‘ آئے گا۔ لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں برسوں لگنے کا امکان ہے۔ ”میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان جرائم کے متاثرین کیوں بے چین ہیں۔ وہ انصاف ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

ریٹشر کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ ان کا دفتر ڈیٹا بیس کے طور پر کام کرے گا جس سے دوسرے لوگ مدد حاصل کر سکیں گے خاص کر جب آئی ایس گروپ کے کسی رکن پر مقدمہ چلایا جا رہا ہو۔

لیکن بین الاقوامی جرائم کی تحقیقات مثلاﹰ انسانیت کے خلاف جرائم پر مقدمات ہمیشہ ایک طویل عمل ہوتا ہے۔ ”کمبوڈیا اور روانڈا کو دیکھیں۔ لیکن ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے فرینکفرٹ کیس کے ساتھ دیکھا۔‘‘ فرینکفرٹ میں حال ہی میں ایک جرمن عدالت نے آئی ایس کے رکن کو سزا سنائی تھی اور ایزدیوں کے خلاف اس تنظیم کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا تھا۔