سانحہ پشاور، سفاکیت اور بربریت کی انتہا

Peshawar Incident

Peshawar Incident

تحریر : ایم ایم علی

پچھلی ایک دہائی سے وطن عزیز کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے ان گنت دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں مائوں کی گودیں اجڑ چکی ہیں سینکڑوں بہنیں اپنے بھائی کھوچکی ہیںاور سینکڑوں سہاگنوں کے سہاگ اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑ چکے ہیں اس کے علاوہ سینکڑوں افراد اپنے جسم کے کئی اعضا سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو چکے ہیں ۔لیکن آفرین ہے اس قوم پر کہ جس نے اس بدترین دہشت گردی کا سامنا بھی نہایت ہی ہمت و استقلال سے کیا ہے، بزدل دہشت گرد لاکھ کوششوں کے باوجود اس قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکے ۔جب سفاک دہشت گردوں نے دیکھا کہ یہ قوم کسی صورت بھی ہماری سفاکانہ دہشت گردی سے حوصلہ ہار نے والی نہیں توان سفاک دہشت گردوں نے اس قوم پر (اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا

اس قوم کے مستقبل پر )ایک کاری ضرب لگائی ۔یہ درندہ صفت اور بد بخت جن کے باطن غلاظت سے لتھڑے ہوئے ہیں اس قوم کو ایک ایسا زخم دینے میں کامیاب ہو گئے جو شائد کبھی بھی مندمل نہ ہوسکے ۔7خون خوار بھیڑئیے دہشت گردوں کے روپ میں پشاور کے آرمی پبلک سکول کی عقبی دیور پھلانگ کر سکول کے اندر داخل ہوئے اور سکول میں داخل ہوتے ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ،یہ بد بخت جدید اسلحہ سے لیس تھے اور انہوں نے اپنے جسموں پر خود کش جیکٹس باندھ رکھیں تھیں ۔یہ دہشت گرد جس گاڑی میں آئے تھے اس کو پٹرول چھڑک کر انہوں نے خود ہی آگ لگا دی گویا وہ مرنے اور مارنے آئے تھے ان کا نشانہ تھے وہ معصوم بچے جو اس سکول میں حصول تعلیم کیلئے آئے تھے۔

دہشت گردوں نے نہتے بچوں پر جدید ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کر دی اور جب یہ بچے اپنی جانیں بچانے کیلئے کلاس رومز کی طرف بھاگے اور کلاس رومز کے دروازے بند کر لئے تو ان بد بخت دہشت گردوں نے کلاس رومز کے دروازے توڑ کر ان نھنے پھولوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ۔ایک معروف جریدے نے اپنے ذرائع کے حوالے سے اپنے جریدے میں لکھا ہے کہ ان سفاک دہشت گردوں نے بعض بچوں کو ذبح بھی کیا تاہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی ،اس جریدے کی روپورٹ کے مطابق ایک سیکورٹی اہلکا ر کی بیوی کو بچوں کے سامنے جلا دیا گیا

اس جریدے نے مزید لکھا ہے کہ بڑے بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا اور انہیں سروں اور چہروں پر گولیا ںماری گئیں اور اگر کوئی بچہ سفاک قاتلوں کے ہاتھوں بچ جاتا یا معمولی زخمی ہو جاتا تو اس کے بعد یہ درندہ صفت دہشت گرد ان بچوںکے قریب جا کر ان کے سینوں اور سروں میں گولیا ںمارتے ۔ان سفاک دہشت گردوں نے معصوم بچوں کے خون سے جس طرح ہولی کھیلی میرا دل کہتا ہے کہ ہلاکو خان کی روح بھی کانپ اٹھی ہوگی ۔ قارئین ! اس دلخراش واقعہ نے پو ری قوم کو سوگوار کردیا ہے ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے

بھلا پوری قوم سوگوار ہو بھی کیوں نہ مجھے یاد ہے کہ ایک بار لاہور کی مال روڈ پر چوزہ فروشوں نے بطور احتجاج اپنے چوزے سڑک پر چھوڑ دئیے تھے اور وہ چوزے گاڑیوں کے ٹائرئوں کے نیچے ا کر کچلے گئے تھے تو لوگ اس پر بھی رو دئیے تھے،پشاور کے سکول میں جن بچوں کا قتل عام ہوا وہ جیتے جاگتے انسان تھے ،اس قوم کا مستقبل تھے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ اس واقعہ پر پوری دنیا میں دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے اور سوگ منایا جارہا ہے ،نھنے پھولوں کی یا د میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں ۔قارئین کرام !ساری دنیا کا سوگ ایک طرف مگر ان والدین کے دکھ اور درد کا عالم کیا ہو گا جنہوں نے اپنے لخت جگر کھوئے ہیں ان مائوں کے رنج و الم کا عالم کیا ہو گا

جنہوں نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے بچوں کو تیار کر کے سکول کی جانب بھیجا ہو گا ،اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کر کے ان کو ناشتہ کر وایا ہو گا، شہید ہونے والے بچوں کی مائوں کے تو وہم گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ا ج وہ اپنے جگر گوشوں کو آخری بار ناشتہ کروا رہی ہیں آج کہ بعد ان کی یہ معصوم آواز وہ کبھی بھی نہیں سن پائیں گی کہ( مما )ناشتہ جلدی دے دو سکول سے دیر ہو جائے گی ،جب انہوں نے اپنے جگر گوشوں کو ناشتہ کروا کہ سکول کی جانب رخصت کیا ہو گا

Parents

Parents

تو کسی کو کیا خبر ہوگی کہ یہ رخصت آخری بار رخصت ہے، اس کے بعد یہ کبھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان والدین کو کیا خبر تھی کہ آج وہ اپنے بچوں کو درسگاہ کی جانب نہیں بلکہ مقتل گاہ کی جانب روانہ کر رہے ہیں۔ مائیں تو اپنے جگر گوشوں کو رخصت کر کے جلدی جلدی اپنے گھر کے کاموں کو ختم کرنے میں مصروف ہوگئیں ہوں گی ،کیونکہ انہوں نے اپنے لخت جگر وں،اپنے نور چشم کے گھروں میں لوٹنے سے پہلے ان کیلئے کھانا بھی تو تیار کرنا ہو گا کیونکہ مائیں جانتی ہیں کہ جب ان کے لخت جگر لوٹیں گے تو وہ آتے ہی کہیں گے ماں ہمیں کھانا دو بہت بھوک لگی ہے

اس لئے مائیں اپنے جگر گوشوں کے گھر پہچنے سے پہلے ہی ان کیلئے کھانا تیار کردیتی ہیں بلکہ کھانا تیا رکرکے اپنے جگر گوشوں کا انتظار کرنا شروع کر دیتی اور ان کی نظر گھڑی کو سوئیوں پر ہوتی ہے ،اور اگر گھڑی کی سوئیاں ان کے لخت جگروں کی واپسی کے وقت سے کچھ منٹ آگے نکل جائیں تو گھڑی کی ہر ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ ان کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے خدا خیر کرے میرا لعل ابھی تک کیوں نہیں آیا ۔ لیکن اس دن تو ان کے لعلوں کی منزل مقصود کسی اور طرف ہی تھی ، اس دن تو ان کی بھوک اور پیاس مٹانے کا انتظام خدا نے جنت میں کر رکھا تھا۔ یہاں پر مجھے ،غلام غوث صاحب کا ایک قطعہ یاد آگیاہے بقول ان کے ۔
مائیں دروازے تکتی رہ جاتی ہیں بچوں کے
بچے سکول سے شہادت پاکر سیدھے جنت جاتے ہیں
مائیں کھانا رکھ کر اس آس پہ بیٹھی رہتی ہیں کہ وہ گھر لوٹیں گے
بچے حوض کوثر پینے سیدھے جنت جاتے ہیں

قارئین کرام! یہ بدبخت دہشت گر د جو اسلام کا نام لے کر اور اسلام کا سہارا لے کر دہشت گردانہ اور سفاکانہ کاروائیاںکرتے ہیں حقیقت میں یہ بد بخت دین اسلام کی (الف،ب)سے بھی واقف نہیں دراصل یہ اسلام مخالف اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں ۔یہ سفاک درندے مسلمان تو درکنار انسان کہنے کے بھی قابل نہیں ،ان کو تو انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہوگی۔قارئین! سانحہ پشاور ایک قومی سانحہ ہے

جس طرح معصوم ،بے گناہ اور نہتے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اس کی مثال نہیں ملتی ،اگر اس قومی سانحے کے بعد بھی اگر کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت ا ن دہشت گردوں کیلئے اپنے دل میں اب بھی کوئی نرم گوشہ رکھتی ہے تویہ ان کا قومی جرم تصور کیا جانا چائیے اور ان کا یہ جرم پشاور کے سکول میں بر بریت کی تاریخ رقم کرنے والے سفاک قاتلوں کے جرم سے کم تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔

Mohammad Ali

Mohammad Ali

تحریر : ایم ایم علی