باغی سے داغی تک کا سفر

Javed Hashmi

Javed Hashmi

تحریر : ایم آر ملک

personality Clash جاوید ہاشمی کا ہمیشہ المیہ رہا یاورثے میں ملا ،مسلم لیگ ن میں چوہدری نثار علی خان، اور پاکستان تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی حتیٰ کہ عمران خان تک سے حسد جاوید ہاشمی کو لے ڈوبا لیڈر شپ کے اوصاف سے یکسر محروم اور عاری وہ شخص ہے حسد کی آگ سے وہ کبھی نکل ہی نہ سکا احساس کمتری ،عدم برداشت اقتدار کی خاطر گراوٹ کی انتہائوں پر کھڑا یہ شخص این اے 149 میں عبرت ناک سیاسی انجام سے دوچار ہونے کو ہے۔

جس کا ضمیر اور اصول اس حد تک گر چکے ہوں کہ قدم قدم پر مفادات کی خاطر وفاداری تبدیل کرنا جس کا وطیرہ ٹھہرے کسی بھی پارٹی قیادت کے ساتھ جس کی وفا منافقت اور مکاری سے عبارت ہو وہ شخص بھلا تحریک انصاف کا صدر کیسے ہو سکتا تھاجماعت اسلامی، تحریک استقلال، ن لیگ، تحریک انصاف اور اب پھر ن لیگ کے چرنوں میں جگہ پانے کیلئے بے تاب، باغی سے داغی تک کا سفر ایک جست میں نہیں طے ہو گیا اس کے پیچھے واقعات کا تسلسل ہے غیر جانبدار حلقے اس بات پر بضد ہیں کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہاشمی کے اثاثے کیا تھے۔

اب کیا ہیں جب آئی جے آئی تشکیل پائی تو کیا اُس نے مہران بنک سکینڈل میں رقم وصول نہیں کی ؟اور تو اور ملتان میں جب گھنٹہ گھر چوک سے حسین آگاہی داخل ہوں تو بائیں جانب آٹھ کنال اراضی پر ایک ویٹرنری ہسپتال اور پولیس پوسٹ تھی اس رقبہ کی قیمت جاوید ہاشمی نے بطور ن لیگی ایم این اے اور اُس وقت کے صوبائی وزیر اوقاف احسان الدین قریشی نے 50,50کروڑ وصول کر کے بیچ ڈالی ،جنوبی پنجاب میں سارے اختیارات 2013کے الیکشن میںبطور پارٹی صدر مخدوم کے ہاتھ میں دے دئے گئے مگر اُس نے بھاری رقوم وصول کر کے ٹکٹیں اکثر جگہوں پر ایسے افراد کو دیں جن کی عوام کے اندر کوئی ساکھ نہ تھی خود میرے ضلع لیہ میں جنوبی پنجاب کے منجھے ہوئے اور بے داغ پارلیمنٹیرین مہر فضل حسین سمراء کو پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا
گیا۔

وہ آزاد اُمیدوار کے طور پر رنر اپ رہا باغی کا یہی سفر اُسے داغی تک لایا یہ عمران کا ظرف تھا کہ اُس نے پارٹی صدارت جیسے کلیدی عہدے کی پگ شفقت محمود ،عارف علوی ،اسد عمر جیسے افراد کے ہوتے ہوئے ایک ایسے شخص کے سر پر رکھ دی جس کا کردار پارٹی کے اندر میر جعفر اور میر صادق سے کم نہ تھا غلامانہ سوچ کے ساتھ وہ اتنا پست ضمیر رہا کہ ن لیگ اُس کے اندر سے نکل نہ سکی اور اُس نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر بے مثال کامیابی و کامرانی سمیٹنے کے باوجود اسمبلی فلور پر ایک ایسے صنعتکار کو اپنا لیڈر قرار دیاجس کے ساتھ اُس کے معاشی مفادات وابستہ تھے پارٹی کے اندر مخلص اور نظریاتی ورکروں کو یہ بات تب بہت ناگوار گزری اور پارٹی قیادت کو ان ورکروں نے نہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ اسے پارٹی سے نکال باہر کرنے پر زور دیا مگر عمران خان شاید تاریخ کو دہرانے پر مجبور ہوئے جب میسور کی دوسری جنگ میں سلطان حیدر علی کا وقت ِنزاع آپہنچا تو بیٹے سلطان فتح علی خان (ٹیپو سلطان ) کو سختی سے یہ کہا کہ میر صادق غدار ہے۔

Life

Life

اسے اپنی زندگی میں عبرت ناک انجام سے دوچار کر دینا مگر سلطان فتح علی اُس کی غلطیاں ڈھونڈتا رہا اور بالآخر وہی شخص تاریخ میں غدار قوم کہلایا جس نے سرنگا پٹم کے دروازے فرنگیوں کیلئے کھول دئیے اور ہندوستان سے مسلم اقتدار کے خاتمے کا موجب بنا وقت نے اس بات کی وضاحت کردی مسلم لیگ ن نے ہی ہاشمی کو تحریک انصاف جوائن کرنے کا ٹاسک دیا تاکہ ایک مجہول الاعضا ،مدقوق الذہن اور مخبوط الحواس جاسوس پارٹی کو ہائی جیک کر کے قیادت کی راسیں اپنے ہاتھ میں لے سکے مگر ایسا نہ ہوسکا ایک داغی کا وہ پلان جو اُس نے خواجہ سعد رفیق کے ساتھ مل کر ترتیب دیا افشاں ہو گیا ،جوشخص ایک آمر کی جھولی میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹتا رہا وہ سب سے بڑا جمہوریت پسند ہے ،جمہوریت کا چیمپئن ہے ،شخصی جمہوریت کی اذیت میں مبتلا جس کی انتہا آمریت کی ذلت سے شروع ہوتی ہے۔

جس کا دلال بن کر وہ وزارت صحت کے منصب تک پہنچا این اے 149کے ووٹرز جن کا عتماد ٹوٹا کا غم و غصہ نقطہ اُبال کے قریب پہنچ رہا ہے آنیوالے دنوں میں یہ نعرہ بھی مخدوم صاحب کا پیچھا کرے گا ایک پاگل آدمی ہاشمی ،ہاشمی سیاست میں ہمیشہ لوگ جعل سازی کو برداشت نہیں کرتے ایک حدہوتی ہے جہاں یہ برداشت دم توڑ دیتی ہے جہاںوہ نام نہاد عوامی نمائندگی کا طوق اُتار کرموروثی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملتان کے باغی کا سفر ”داغی ”تک آپہنچا ہے 16اکتوبر کے فیصلہ کن مرحلہ سے پہلے عامر ڈوگر کے حق میں عوام نے فیصلہ دے دیا وہ جانتے ہیں کہ نام نہاد اور خود ساختہ سرمایہ دارانہ جمہوریت جو ملتان کے مخدوم کی پشت پر کھڑی ہے۔

سراب کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو صرف اور صرف رائے ونڈیوں کے سرمائے کے تسلط کی دلالی کے سوا کچھ نہیں 68 برسوں سے جن کے سرمائے کے تسلط کا جبر 18 کروڑ عوام کو اپنے جبڑوں میں لئے ہوئے ہے مدینة الاولیاء میں انہی سرمایہ داروں کا مخدوم اس نام نہاد ”جمہوریت”کو بچانے کیلئے این اے 149 میں عوام کے مد مقابل آکھڑا ہوا ہے جمہوریت اب زمینی خدائوں سے حقیقی آزادی اور عظمت واپس چاہتی ہے ملتان کے عوام اس معرکے میں ایک دوسرے کے ساتھ بہم اور متحد ہوتے نظر آرہے ہیں اب وہ انتخابات کو مکاری اور چپ چاپ اغوا کرنے کے خلاف مزاحمت بنیں گے عوام کے حق خود ارادیت کو اسی مکاری کے ساتھ چرانے پر ہی موجودہ حکمرانوں کو عوامی رد ِ عمل کا سامنا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رائے ونڈ کے مکیں جعلی پارلیمنٹ میں اپنے طبقہ کی حمایت ملنے پر طاقت اور برتری کے احساس سے پھولے نہیں سما رہے جو اُن کی سنجیدہ غلطی ہے امریکیت کا رول یہ ہے کہ اپنی من پسند ”حکمرانی ”کو کسی بھی قسم کی پبلک ڈیکلریشن دینے میں بہت محتاط اور ہچکچا رہی ہے البتہ اپنی ”من پسندشخصی جمہوریت ” کی موشگافیوں کے برعکس اوباما اور اُس کے باقی غنڈے ساتھی بالکل پریشان نہیں ہونگے اگر عمران اور قادری اقتدار میں آکر اُس کی گود میں آجائیں امریکیت یہ بھی بھانپ چکی ہے کہ اپنی من پسند سمت میں وقت سے پہلے اُٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم ایک ناقابل کنٹرول دھماکے کی طرف بڑھ سکتا ہے اس بنا پر امریکیت کی پشیمانی دیدنی ہے۔

ایک مخصوص طبقہ کے منافعوں کا حامل نظام اپنے تئیں کسی طور بھی فطری ،تکنیکی ،اور انسانی وسائل کی بہتات سے استفادے کا اہل نہیں اس کی بجائے یہ ہمیں بے روز گاری ،غربت ،محرومیوں کی شدت اور وسعت میں بے رحمانہ اضافہ کرتا نظر آرہا ہے اقبال کی وہ دھرتی جسے اپنے قدرتی وسائل کی بنیادوں پر خوشحال ترین ہونا چاہئے تھا وہ دنیا کی غریب ترین ریاست بن گئی لوٹ مار کرنے والے طبقہ کی ”سحر انگیز معیار زندگی کی بنیادیں اکثریت کی محرومیوں اور ذلتوں پر رکھی گئی۔

نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کا مظاہرہ بھی جاوید ہاشمی نہیں اُس نظام کے خلاف ہے جسے بچانے کیلئے جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن میں جا کھڑا ہوا ہے یہ اشرافیہ کے مخدوم پر عدم اعتماد کا پہلا اظہار تھا اور اس نظام کے رکھوالے کے پاس این اے 149کے ووٹرز کے غصے کا کوئی توڑ نہیں شہر اقتدار میں عمران کی بغاوت سے ہزاروںطلباء اپنے گھروں اور یونیورسٹیوں سے اسی نظام کے خلاف نکلے ہیںاور جو سبق کپتان نے اُنہیں دیا ہے وہ سینکڑوں کتابوں اور سیمیناروں میں اُنہیں نہیں ملا جاوید ہاشمی کے خلاف طلباء اور عوام کے داغی ،داغی کے نعرے اس نظام کے خلاف طبل جنگ ہیں جسے جاوید ہاشمی بچانے کی سر توڑ سعی کر رہے ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک