سابق آرمی چیف کو سزا ۔۔ انصاف یا انسانیت کا خون ۔۔؟

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : سید عارف سعید بخاری

دو قومی نظرئیے اور جمہوریت کی نام پر بننے والے پاکستان میں گزشتہ 77 برس سے جس طرح عدلیہ سمیت سیاسی ،جمہوری و عسکری قوتوں نے جمہوریت کو ثبوتاژ کرکے فوجی حکومت کا جواز پیدا کرکے جمہوریت پر شب خون مارنے کی ایک بے مثال تاریخ مرتب کی ،دنیا کی جمہوری و عسکری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔عسکری قوتوں نے جب بھی جمہوریت کو دیس نکال دیا تو ہمیشہ ہی یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ قومی مفادات کو خطرات لاحق ہونے کی بنا ء ”مارشل لاء ”ناگزیر ہو چکا تھااس کیلئے ہمیشہ ہی ”عزیز ہم وطنو! ۔۔کا نعرہ مستانہ بلند کیا جاتا رہا ۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی ملک میں مذہبی جماعتوں نے زور پکڑا تو اس ملک میں مارشل لاء لگا یا جاتا رہا ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین کی منظوری کے وقت قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ اب آئین پاکستان کی روسے کوئی بھی شخص ”مارشل لائ” نہیں لگا سکے گا اور ایسا کرنے والے کی سزا ”موت” مقرر کروا دی گئی ۔لیکن چند برس بعد ہی جبکہ تحریک نفاذ نظام مصطفےٰ ۖ نے زور پکڑا تو مردِمومن مرد حِق ضیاء الحق نے بھٹوحکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا ء لگا دیا لیکن بعد ازاں ہماری اعلیٰ عدالتوں نے ”نظریہ ء ضرورت ” کے تحت فوجی آمریت کو جائز قرار دے دیا۔۔

اسی طرح جنرل مشرف کو جبکہ ان کا طیارہ فضا میں پرواز کر رہا تھا تو زمین پر بیٹھی فوجی قیادت نے انہیں پروٹوکول کے ساتھ جہاز سے اتار کر مسند اقتدار پر بیٹھا دیا ۔لیکن آئین پاکستان کے تحت کسی ایک بھی فرد حتیٰ کہ عدالت کے فاضل ججز صاحبان کی بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ جنرل مشرف کے مارشل لاء کو” ناجائز ”یا ”خلاف آئین ”قرار دے پاتے بلکہ انہیں تحفظ فراہم کیا گیا ۔اس وقت اسی غاصب انسان کی حکومت میں ججز نے دوبارہ حلف اٹھائے اور حق و انصاف کا بول بالا کرتے رہے ۔۔جنرل مشرف کے دور میں جو جو اقدامات یا کارروائیاں کی جاتی رہیں ،ان میں تمام حکومتی ذمہ داران کی مشاورت اور حمایت انہیں حاصل رہی ۔کسی ایک بھی واقعہ کی تنہاء ذمہ داری جنرل پرویز مشرف پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔۔لیکن گذشتہ کئی برس سے ان تمام سانحات کا ذمہ دارجنرل پرویزمشرف کوہی ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

ادھرگذشتہ روز خصوصی عدالت نے3نومبر2007ء کو نافذ کی گئی ”ایمرجنسی” کے جرم میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت دینے کا حکم صادر کیا ہے۔فیصلہ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی جانب سے سنایا گیا ہے۔ایک جج نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ استغاثہ نے موقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو بھی شریک ملزم بنایا جائے۔

تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔عدالت نے دورانِ سماعت استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام کیس میںشامل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔عدالت نے قرار دیا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیمی چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔اس حد توسبھی نے فیصلے کو سراہا ۔لیکن جب کیس ہذاء کا تفصیلی فیصلہ سامنے آیا تو اس میں جسٹس وقار سیٹھ کی طرف سے دئیے گئے ریمارکس کہ ”جنرل پرویز مشرف اگرسزا سے قبل مر جائیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر لایا جائے اور اسے تین دن تک Dچوک اسلام آباد میں لٹکا یا جائے ”نے سارے فیصلے کو مشکوک بنا دیا ہے ۔اس پر سب سے زیادہ سخت ردعمل پاک آرمی کی طرف سے آیا ہے ۔لیکن عوامی ،مذہبی و سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی مسلسل اس پر شدید غم و غصے کا اظہا رکیا جارہا ہے ۔جسٹس وقار سیٹھ کی رائے سراسر انسانیت کی توہین کے مترادف ہے ، حکومت نے اس سزا کے خلاف جوڈیشل کمیشن کیس دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔۔حکومت نے جو کرنا ہے وہ انہیں کرنا چاہئے ۔لیکن فیصلے سے دنیا بھر میں وطن عزیز کی جو جگ ہنسائی ہوئی ہے وہ ایک افسوسنک امر ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر جشن منانے والے پرویز مشرف سے حلف لے چکے ہیں جبکہ عسکری قیادت نے جمہوری استحکام کیلئے بھرپورمعاونت کی، اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا 2013 میں پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست دی گئی اور پرویز مشرف نے ایمرجنسی نفاذ میں شامل دیگر لوگوں کو بھی شامل تفتیش کرنے کی درخواست دی تھی، حکومت کی جانب سے استغاثہ ٹیم کی تبدیلی کی درخواست بھی دی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرویز مشرف کو 342کا بیان قلمبند کرانے کی مہلت نہیں دی گئی جبکہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل ہر شخص کا بنیادی حق ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی حیثیت بھی قانونی طور پر استغاثہ کی سی ہوتی ہے لیکن خصوصی عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔

سپریم کورٹ ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کررہی ہے لیکن خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کا ویڈیو لنک کے ذریعے بھی بیان لینے سے انکار کیا، دوسری جانب چودھری شجاعت کی فریق بننے کی درخواست بھی عدالت نے مسترد کی، مقدمے میں فریق بننے کی مختلف بیوروکریٹس کی درخواستیں بھی مسترد کی گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سازش مان بھی لی جائے تو تمام کرداروں کا موقف سنے بغیر فیصلہ ممکن نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پرویزمشرف کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل کا آپشن موجودہے،وفاقی حکومت اس کیس میں اپیل دائرنہیں کرسکتی،مشرف کے وکلاخود اپیل دائرکرسکتے ہیں،اس کیس میں ایک نہیں بہت زیادہ خامیاں ہیں،کیس میں صرف ایک شخص کو ٹارگٹ کیاگیا،اصل میں ایک شخص کو نہیں بلکہ پاک فوج کو ٹارگٹ کیاگیا ۔بلاول بھٹو نے فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ بی بی بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف سے ہی این آراو لیا تھا۔

ایک نظر 3نومبر 2007ء کو صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی جانے والی ”ایمرجنسی” کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایمرجنسی فاضل عدالت کے بعض اقدامات کی بدولت ہی لگائی گئی تھی ۔اگرہمیں وہ وقت یاد ہو تو اکتوبر 2007ء میں صدارتی انتخاب ہونا تھا تو کچھ حلقوں نے جنرل مشرف کے خلاف بیک وقت دو عہدے رکھنے کی وجہ سے انہیں نااہل قرار دلانے کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا ، جس پر عدالت اعظمیٰ کے فاضل جج صاحبان نے جنرل پرویز مشرف کو ”نااہل ‘ قرار دینے کی بجائے الیکشن لڑنے کی مشروط اجازت دے دی تھی اور یہ حکم صادر کیا تھا کہ مذکورہ الیکشن کے نتائج کا اعلان آئندہ حکم تک نہ کیا جائے جنرل پرویز مشرف الیکشن جیت گئے لیکن نتائج روکنے کی وجہ سے انہیں حلف اٹھانے میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو انہوں نے ”ایمر جنسی ” لگا دی اور ججز کو نظر بند کر دیا ۔اس کے علاوہ انہوں نے کوئی اور قابل ذکر ایکشن نہ لیا ۔۔گویا جنرل پرویز مشرف نے اس دولہے کی طرح 3نومبر 2007ء کو ملک میں ”ایمرجنسی ” لگا دی۔جسے شادی کرنے اوردولہن لانے کی اجازت تو دے دی گئی ہو،لیکن اسے ”حقوق ” کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہو،مجبوراً اسے ایمرجنسی کا سہارا لینا پڑے ،اس لئے اس ایمرجنسی کی براہ راست ذمہ داری جنرل پرویز مشرف پر ڈالنا سراسر ظلم اور نا انصافی ہے ۔

ادھر جنرل(ر) پرویز مشرف سے متعلق خصوصی عدالت کے فیصلے پر ردِ عمل میں پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف، صدر پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے، 40سال سے زیادہ عرصہ پاکستان کی خدمت کی، ملک کے دفاع کے لئے جنگیں لڑیں، وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے۔فوج میں اعلیٰ سطح پر مشاورت کے بعد جاری بیان میں کہا گیاکیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، خصوصی عدالت کی تشکیل کے لئے بھی قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا بنیادی حق نہیں دیا گیا،عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی، کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا، افواجِ پاکستان توقع کرتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاک فوج نے پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے بالعموم اور دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں سے جاری جنگ میں بالخصوص ہزاروں قربانیاں دی ہیں ۔دیکھا جائے تو 2010 تک آئین کا آرٹیکل 6 صرف آئین کی منسوخی کی حد تک تھا اور اسکی سزا عمر قید تھی۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت 2010 میں آئین کی معطلی بھی اس میں شامل کی گئی لیکن اس قانون کے اطلاق سے پہلے کے اقدامات پر اس کے نفاذ کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 ء کو صرف انسانی حقوق کے کچھ آرٹیکلز کی حد تک 42 دن کے لیے آئین معطل کیا تھا، نہ کابینہ و حکومت توڑی گئیں اور نہ ہی سیاسی و پارلیمانی نظام کی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی،اس لئے 2010 ء کے قانون کا اطلاق 2007 ء کے اقدامات پر کئے جانے کا عمل ایک سوالیہ نشان ہے ۔۔جبکہ آئین کے آرٹیکل 6 کے سب سیکشن (ii) کے تحت آئین کی معطلی کے عمل میں کسی فرد واحد کی بجائے اس میں شریک دیگر تمام افراد پر بھی یہی سزا لاگو ہو تی ہے ۔ جبکہ عدالت نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز، وزیرِ قانون زاہد حامد، سیکرٹری لاء ، چاروں گورنروں سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور سیاست دانوں کو تو اس جرم کا شریک کار نہیں گردانا لیکن ملک کے لیے تین جنگیں لڑنے والے، 1979 میں بطور میجر بیت اللہ شریف میں سوا لاکھ یرغمالیوں کی حفاظت کرنے والے اور بھارتی شہر آگرہ میں صحافیوں کے روپ میں راء کے ایجنٹوں کو منہ توڑ جواب دینے والے پرویز مشرف کو ”غدار” قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ملکی سلامتی واستحام کو خطرات سے دوچار کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جا رہا ۔

ملک کے وفادار اورپاک وطن کیلئے اپنی جان دائو پر لگانے والا اور اپنے دور حکمرانی میں ملک کو عالمی دہشت گردی سے بچانے کیلئے حکمت عملی سے کام لینے والے کمانڈوکو ”غدار” ٹھہرانا قرین انصاف نہیں ۔بلاشبہ حق و انصاف کی فراہمی اور آئین پاکستان کی پاسداری ہمیں تمام امور پر مقدم ہونا چاہئے ۔عدالتی فیصلوں سے ”انصاف کی مہک ” آنا چاہئے لیکن ایسا نظر آتا ہے عدلیہ بھی مصلحتوں کا شکار ہو کر ایسے فیصلے سنا رہی ہے کہ جن سے عدلیہ کی عزت و و قار کو بھی دھچکا لگ رہا ہے ۔عدالتیں اور فاضل ججز صاحبان لائق تعظیم ہیں ، ان کے فیصلوں پر تنقید کا کسی کو حق حاصل نہیں ،کیونکہ ایوان عدل میں بڑے بڑے ذہین و فطین ججز صاحبان بیٹھے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ عدالتیں آئین کی بالادستی اور حق و انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں مثبت فیصلوں کو یقینی بنانے پر دھیان دیں ،تاکہ پاکستان کا وقار عالمی سطح پر بھی برقرار رہے ۔جنرل پرویز مشرف پاک فوج کے سابق کمانڈر انچیف رہے ہیں ۔اور انہیں اپنے دور حکومت میں اٹھائے گئے اقدامات میں پوری فوجی ٹیم اور سیاسی قائدین کی حمایت حاصل رہی ہے ، لال مسجد کا واقعہ ہو ،یا اکبر بگتی کا قتل ۔اسی طرح ” ایمرجنسی ” لگانے میں بھی انہیں اپنے سبھی ساتھیوں کی حمایت حاصل رہی۔ اس لئے کسی بھی جرم میں انہیں انفرادی حیثیت میں سزا دینا سراسر نا انصافی ہے ۔اس وقت چونکہ وہ بستر مرگ پر پڑے ہیں،اس لئے اس قسم کی فیصلے سراسر انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہیں، ان کا تدارک ہونا چاہئے۔

Syed Arif Saeed Bukhari

Syed Arif Saeed Bukhari

تحریر : سید عارف سعید بخاری
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com