اسامہ نہیں القاعدہ

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

پچھلے دنوں سابق وزیر داخلہ اور پرویز مشرف کے ساتھی زاہد سرفراز نے اسلام آباد میں کی گئی اپنی پریس کانفرنس میں ایک شوشہ چھوڑا کہ امریکی اسامہ بن لادن کو زخمی حالت میں زندہ ہی اپنے ساتھ امریکہ لے گئے تھے اور اسامہ بن لادن سے امریکہ کی ایک خفیہ جیل میں تفتیش کی جا رہی ہے، میں زاہد سرفراز کے اس شوشے پر دل کھول کرہنساکہ امریکہ کیسے کیسے بندوں سے کام لیتا ہے، مجھے مری سے میڈیکل کی طالبہ طوبہ عباسی تقریبا ای میل کرتی رہتی ہیں،اس بار بھی ان کا سوال تھا کہ تبسم صاحب کیا واقع اسامہ بن لادن ابھی زندہ ہے میں بہت خوب ہنسا اور سوچ میں گم ہو گیا کہ یار پتا نہیں ہماری قوم ان باتوں سے خود کوکیسے نجات دلا پائے گی۔

ہماری طرف سے اسامہ زندہ ہویا مرا ہمیں کیا فرق پڑتا ہے، جن لوگوں نے مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کو پڑھا ہے وہ ایکس ٹو کے کردار سے بہ خوبی واقف ہوں گے، ایکس ٹو دشمن سرغنہ کے خلاف کس طرح جال بچھاتا ہے اور پھر پورے نیٹ ورک کو تباہ کرتا ہوا کس طرح ایک سرا چھوڑ کر کہانی کے تسلسل کو قائم رکھتا ہے جبکہ سسپنس اور ڈرامائی حالات کس طرح ہیرو کی شبیہ لافانی بنائے رکھتے ہیں۔ اس کا لائیو نظارہ ہم امریکہ اور اسامہ جنگ میں دیکھ چکے ہیں فی الحال قرائن، ثبوت و شواہد کم از کم اس بات کی گواہی دینے لگے ہیں کہ امریکہ کو ناکوں چنے چبوانے والا اسامہ بن لادن اس دارفانی سے دار جاودانی کو منتقل ہوگئے ہیں۔

اور انہیں شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ لیکن القاعدہ کا بھوت اب بھی زندہ ہے اور امریکی میڈیا اس غیر مرئی نیٹ ورک کی موجودگی کو باور کراتے ہوئے کس طرح اپنی لافانی حقیقت کا بھرم قائم کرنے میں مصروف ہے اس کا بھی نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں، گوکہ امریکی خبروں پر مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا،جبکہ جو ویڈیوز ریلیز کئے جارہے ہیں اس کی صدا قت پر انگلیاں بھی اٹھائی جار ہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اسے حقیقت تسلیم کئے لیتے ہیں کیونکہ موت یقینی ہے، اور کسی بھی شخص کو اس سے انکار نہیں۔ البتہ اسامہ کی موت پر جس قدر خاموشی پاکستانی حکمرانوں میں دیکھی اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے۔

osama

osama

کہ ہم امریکہ کے کس قدر غلام ہو چکے ہیں۔ میں یہاں امریکہ و القاعدہ کے حوالے سے جو باتیں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے 80 کی دہائی کے سپر پاور سویت روس کا خاتمہ اسامہ اور اس کے حواریوں کے ذریعہ کروایا اور واحد سپر پاور کا تمغہ حاصل کرلیا۔ 90 کی دہائی میں جب پوری دنیا میں اسلامی تحریکات کا غلبہ تھا اور دنیا بھرمیں اسلام پسند ایک ابھرتی ہوئی قوت محسوس ہورہے تھے کہ 1993 میں سموئیل ہنٹنگ ٹن نے فارن افیئرز جنرل میں اپنا مقالہ تہذیبوں کا تصادم شائع کروایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ اگر ابھرتی ہوئی اسلامی تحریکات کو دفن نہیں کیا گیا تو پھر امریکہ اپنی چودھراہٹ قائم نہیں رکھ سکے گا۔

بالآخر 1996 میں یہی مضمون Clash of Civilization and new world orderکی کتابی صورت میں سامنے آیا اور پوری دنیا کی پالیسی پر اثر انداز ہوا۔ 9/ 11 کے واقعہ پر اب بھی تذبذب قائم ہے جبکہ اس کی آڑ میں افغانستان میں ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور قدرتی معدنی ذخائر پر قبضہ حاصل کرلیا گیا۔ وقت گذرتے ہی عراق کا قلعہ قمع کردیا گیا اور پٹرول کے حصول کے ساتھ ہی پورے عرب میں ایک نا معلوم دہشت قائم کردی گئی۔ یہ تمام کام بھی حیاتیاتی ہتھیار، القاعدہ اور اسامہ کے نام پر ہی کیا گیا تھا۔ امریکہ میں جب معاشی مندی کا دور دورہ شروع ہوا تو امریکی انتظامیہ نے دوبارہ گیم پلان ترتیب دیا اور عرب ممالک میں اپنے کٹھ پتلیوں کو ہٹا کر ان کے تمام اثاثے منجمد کر لئے اس طرح جہاں اس نے اپنی معیشت مستحکم کر لی وہیں۔

عرب ممالک کے اندر پک رہے اندرونی لاوے کو بھی دبانے کی کوشش کی لیکن اس دوران جب مصر، تیونس اور لیبیا میں اسے ویسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کا کہ وہ متقاضی تھا تو اس نے دوبارہ اسامہ کا گیم ترتیب دیا اور معاشی بحران سے جہاں خود کو نکالنے کی کوشش کی ہے وہیں غیر محسوس انداز میں مخالفین کو یہ باور بھی کرایا ہے کہ ہوشیار اب بھی ہم زندہ ہیں دراصل اسامہ کے نام پر امریکہ نے جس قدر فائدہ حاصل کیا ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی، سیاست ایک ایسا چھلاوہ ہے جس پر صدق و صفا کا گمان نہیں کیا جا سکتا، سیاست میں نہ تو کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔

International

International

بلکہ تمام چیزیں وقت و حالا ت کے اعتبار سے طے کی جاتی ہیں۔جب گلی محلوں کی سیاست میں کسی کو مہرہ بنا کر اپنی چالیں چلی جاتی ہیں تو بین الاقوامی حالات میں کس قدر مہرے استعمال کئے جاتے ہوں گے اس کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس وقت دنیا نئی امنگوں اور نئی تمنائوں کے ساتھ کروٹ بدلنا چاہتی ہے۔ یک قطبی قوت کا خاتمہ بھی حتمی ہے لیکن اس سے پہلے جو ڈرامے کھیلے جارہے ہیں پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا تماش بین کے طور پر تماشہ دیکھ رہی ہے۔ 1980 کی دہائی کے بعد سے ہی امریکہ نے اسلام اور عالم اسلام کو ہدف بناتے ہوئے جتنے پلان ترتیب دئے تھے یقینا وہ اس میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ صیہونی قوتوں نے خود امریکہ کی جو حالت بنا رکھی ہے۔

وہ خود امریکیوں کے بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے، معاشی مندی کے ساتھ عام بے روزگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے، بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہوتے جارہے ہیں جبکہ اوبامہ نے عالم اسلام سے رشتوں کو مستحکم کرنے کے لئے قاہرہ خطاب کے ذریعہ جو پہل کی تھی ،صیہونی قوتیں اب اسے سبو تاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہاتھی مرنے کے بعد بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، امریکہ اپنی ساکھ بچانے اور اپنا دبدبہ قائم رکھنے کی جو کوشش کر رہا ہے یہ اس کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ مجبوری بھی ہے۔ اورشاید اسامہ کی موت کے بعد وہ افغانستان چھوڑ کر جس طرح نکلنا چاہتا ہے اور اپنی معیشت مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

وہ باعث تشویش ہے۔ امریکی عوام نہ حقیقی صورتحال سے آگاہ ہیں اور نہ انہیں آگاہ ہونے دیا جارہا ہے۔بلکہ ایسے جذباتی ایشوزکو ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے جس کا کہ ان کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ امریکی میڈیا بھی جذبات کی آڑ میں ہی اپنی عوام کو ان تمام حقائق سے دور رکھنا چاہتا ہے جس سے آگہی ان کا جمہوری حق ہے لیکن کہتے ہیں۔

کہ جمہوریت تو 49 عقلمندوں پر 51 بیو قوفوں کی حکمرانی کا نام ہے تو یہ ہم امریکہ میں دیکھ رہے ہیں۔البتہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اسامہ کی موت کے بعد بھی القاعدہ کا بھوت جس طرح زندہ رکھا گیا ہے یہ اب مزید کیا کیا گل کھلاتا رہے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ صیہونی قوتیں کوئی ایسا پلان تر تیب دے دیں جو خود امریکی وجود کے خاتمے کا باعث بن جائے۔ کیا امریکی عوام اس رخ پر سوچتے ہوئے اسامہ کے احسانات کو یاد کریں گے۔


تحریر : ایم اے تبسم
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102