دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا !

Friendship

Friendship

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی

دوستی ایک بڑی نعمت ہے، اس میں تو کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ کہا گیا ہے کہ نئے دوست بنایئے مگر پرانی دوستی مت توڑیئے، انگریزی زبان کی ایک کہاوت مشہور ہے: “Make new friends, but keep the old: Those are silver, these are gold.” زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں دوستوں کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے، جب آپ اپنی سکونت بدل دیتے ہیں تو نئے دوست آپ کی فہرست میں ضرور آتے ہیں۔ زندگی میں مختلف قسم کے دوست ملتے ہیں لیکن دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کی مصیبت میں کام آئے۔

دنیا کی طرف صرفِ نظر کریں تو 1993ء میں گزرا دوستی کا ایک اعلیٰ اور عمدہ واقعہ پیش آیا، ایک شخص کو کینسر کی وجہ سے کیمو تھراپی کے تحت سر منڈھوانا پڑا ۔ اس پر اس کے دوستوں نے بھی اپنا سر منڈھوا لیا تاکہ اس کے دوست کو یہ احساس نہ ہو کہ اسے کسی بیماری کی وجہ سے اپنا سر منڈھوانا پڑا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
یار قتیل نئے لوگوں سے
ایک ہی یار پرانا اچھا

شیخ سعدی کا ایک قول ہے کہ ” دشمن سے ہمیشہ بچو ، اور دوست سے اُس وقت جب وہ تمہاری تعریف کرنے لگے۔”کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”وفا تو اس زمانے میں تھی جب مکان مٹی کے ہوا کرتے تھے اب تو گھر بھی پتھر کے ہیں اور لوگ بھی۔”بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہے ہوتا ہے کہ دوستی کتنی طاقتور ہوتی ہے۔ خاص طور پر ضعیفی میں اگر اچھے دوست ہوں تو زندگی کے آخری لمحات ہنسی خوشی بسر ہو جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں مشترکہ فیملی کا طریقہ بہت کامیاب ہوا کرتا تھا، یہ زمانہ تو نیو کلیر سسٹم کا ہے، اس زمانے میں دوستی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کل کے بچوں اور آج کے بچوں میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے۔

تین طرح کے دوست ہوتے ہیں، پہلا سب سے اچھا، دوسرا قریبی اور تیسرا اتفاقی دوست۔ وہی آپ کا سچا دوست ہوگا جس میں اعتماد اور صاف گوئی ہو۔ کسی مسئلے پر نااتفاقی ہو سکتی ہے لیکن دوستی اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ اور اسی کو دوستی کہتے ہیں ۔عالمی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ دو تین مہینوں کے بچوں کو بھی دوستی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آسل دوستی میںمذہب ، قوم یا کوئی فرقہ حائل نہیں ہوتا، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دوست بنانے سے قبل دوست کی کمزوریوں کا جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے۔ دوستی میں دیانتداری، صداقت اور پُر خلوص اعتماد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ دوستی کی خاطر اپنے آپ میں کچھ تبدیلیاں لاتے ہیں تاکہ دوستی کا مضبوط رشتہ قائم رہ سکے۔

اگر آپ نے اپنے دوست کو جھوٹ یا غیبت میں ملوث پایا تو پھر یقین کیجئے وہ آپ کے تعلق سے بھی سچا نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کا دوست آپ سے کچھ کتابیں یا کوئی چیز مستعار لیتا ہے اور انہیں لوٹانا بھول جاتا ہے اور جب آپ اسے ان چیزوں کے بارے میں یاد دلاتے ہیں تو اسے غصہ آجاتا ہے۔ بسا اوقات آپ کا دوست آپ سے کچھ قرض کے بارے میں یاد دلاتے ہیں تو وہ غصہ میں آ جاتا ہے جب کہ کچھ دوست تو دوستی ہی توڑ لیتے ہیں۔ اس موقع پر ہی دوستوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ دوست وہ ہے جو آپ اس انکساری سے پیش آئے اور دوستی کو ہر حال میں نبھائے۔دوستی ساتھ بیٹھ کر کھانے سے بڑھتی ہیں۔دوست وہی ہوتا ہے جو مصیبت میں کام آئے، کئی مثالیں ایسی ہیں کہ خوشحالی میں تو سبھی ساتھ ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی پریشانی کسی دوست کو لاحق ہوتی ہے، سارے دوست اس کا ساتھ باری باری کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ دوستی کی بد ترین مثال ہے۔

اسی لئے کہا گیا ہے کہ: A friend in need is a friend indeed دوستی میں مذہب کا دخل بھی نہیں ہوتا، میرے ایک دوست کرسچن ہیں، وہ اسکول اور کالج لائف میں بھی میرے ساتھ تھے۔ ہمیشہ ہم ساتھ ہوتے تھے تو لوگوں کو ہماری دوستی پر بہت تعجب ہوا کرتا تھا۔ مگر آج تو ہر معاملے میں سیاست کا عمل دخل ہے، جب سے ہمیں آزادی ملی ہے ہماری سیاست بڑھ گئی ہے۔ سیاست معیار کی ہو تو اچھی بات ہے لیکن ایسا عموماً نہیں ہوتا۔بچپن کا دوست سرمایہ ہوتا ہے اس کی قدر کریں ۔
وہ مسکراہٹیں جو چہرے پہ لاتے ہیں
وہی تو یار و سچے دوست کہلاتے ہیں

Allah

Allah

دنیا میں سب غرض کے اچھے اور بُرے دوست رکھتے ہیں، بے غرض کا دوست صرف ہوتا ہے جو سب کچھ دیتا ہے لیکن لیتا کچھ نہیں،یا پھر بے غرض کے دوست حضرت محمد ۖ ہیں کہ شفاعت کے بغیر چین لیں لیں گے، یا پھر اللہ والے ہیں (جو بلا معاوضہ نجاب کا راستہ بتاتے ہیں) باقی سب غرض کے دوست ہیں۔ بیوی، اولاد، برادری کوئی بھی بے غرض یار نہیں ہے، اور برادری والے تو ایسی چیز ہیں کہ اگر اپنے بدن کے گوشت کا قیمہ بنا کر انہیں کھلا دیں تو بھی کہیں گے مزہ نہیں آیا۔حضرت علی نے کہا ہے کہ: ”اچھا دوست چاہے جتنی بار روٹھے اسے ہر بار منا لینا چاہیئے کیونکہ تسبیح کے دانے چاہے جتنی بار بکھریں چُن لئے جاتے ہیں۔”یہ بھی حضرت علی کا ہی قول ہے کہ : ” جو شخص تمہارا غصہ برداشت کر لے اور ثابت قدم رہے تو وہ تمہارا سچا دوست ہے۔”

یہ بھی خوب ہی ہے کہ اگر کسی پر اعتماد کرو تو آخروقت تک کرو نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو۔ آخر میں تمہیں یا تو ایک سچا دوست ملے گا یا پھر ایک اچھا تجربہ۔دنیا میں دو چیزیں کبھی نہیں بِک سکتیں ایک دوستی اور دوسرا پیار اگر دونوں سچا ہو تو۔ ویسے بھی انسان کو اُس کی برائیوں سمیت قبول کرنے والا ہی اس کا سچا دوست ہوتا ہے…کیونکہ خوبیاں تو دشمن کی بھی متاثر کرتی ہیں…نبی کریم ۖ نے فرمایا: جس کو دوست بنائو تو اپنے دل میں ایک قبرستان تعمیر کر لو جس میں اس کی برائیوں کو دفن کر سکو۔ اس سے جنگ نہ کرو، اس پر اپنی برتری کا اظہار نہ کرو۔ اس کے متعلق دوسرے سے پوچھتے نہ پھرو، ہو سکتا ہے

اس کا دشمن تمہیں کوئی غلط بات بتا دے، اور یہ غلط فہمی تمہاری جدائی کا سبب بن جائے اور یوں تم ایک اچھے دوست سے محروم ہو جائو۔ دوستی زندگی کا سب سے بڑا ، وفادار اور قیمتی رشتہ ہے، جس کے سامنے ہیرے، سونے چاندی غرض ہر مہنگی سے مہنگی چیز کی کوئی قیمت نہیں رہتی ہے۔ اس میں اگر خلوص، وفا، ہمدردی ، محبت ، اعتماد کے موتی پروئے جائیں تو یہ کبھی نہیں ٹوٹتی، اگر حسد، بغض و کینہ ، دعاوت، نفرت کے موتی پروئے جائیں تو یہ یوں بکھر جاتی ہے، جیسے سوکھے پتھے بکھر جاتے ہیں۔ آیئے ہم مل کر اس دوستی اور دوست کے رشتے کو اپنے اپنے الفاظوں میں ڈھالتے ہیں اور کھوج لگاتے ہیں، ان سارے سوالوں کی۔ کیونکہ دوستی کا رشتہ انمٹ ہے۔ دوستی کے موضوع پر بڑا ہی معروف مصرعہ ہے:
”دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی