جنرل راحیل نے 2014ء میں بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی: رچرڈ اولسن کا انکشاف

Rachel Sharif

Rachel Sharif

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے انکشاف کیا ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیرالاسلام ستمبر 2014ء میں بغاوت کے لئے پر تول رہے تھے لیکن اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) راحیل شریف نے اسے ناکام بنادیا۔ شجاع نواز نے اپنی نئی کتاب میں نئی خصوصی تفصیلات دینے کے علاوہ پاک امریکا تعلقات اور اندرونی سازشوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

کتاب ’’بیٹل فار پاکستان، بیٹریو ایس فرینڈ شپ اینڈ ٹف نیبر ہڈ‘‘ میں رچرڈ اولسن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنرل (ر) ظہیرالاسلام کور کمانڈرز اور ہم خیال فوجی افسران سے گفتگو کر رہے تھے لیکن انہیں آرمی چیف کی حمایت حاصل نہیں ہوئی لہٰذا بغاوت کامیاب نہ ہوسکی۔

رچرڈ اولسن نے یہ تبصرہ 2014ء میں عمران خان کے احتجاجی دھرنے کے تناظر میں کیا۔ 373؍ صفحات پر مشتمل مذکورہ کتاب کے مصنف شجاع نواز سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز مرحوم کے بھائی ہیں۔ اپنی اس تازہ کتاب میں شجاع نواز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکیوں کے لئے سابق آئی ایسآئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا سیدھا نشانہ باز انتہائی قوم پرست جنرل ہے جو جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے اصرار پر انٹیلی جنس کی دنیا میں آیا۔ وہ ایک فعالیت پسند اور ملک کے سب سے بڑے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ تھے جس نے اس کے آپریشنز کو حقیقتاً اپنی مرضی سے وسعت دی۔ پاکستان میں امریکی کارروائیوں اور ان کے کارندوں کے بارے میں معلومات اور اطلاعات تک زیادہ دسترس طلب کی۔

شجاع نواز کے مطابق جنرل شجاع پاشا امریکی نگرانی کا بڑاہدف رہے۔ بیرون ملک دوران سفر انہیں تلاش کیا جاتا رہا۔ کتاب میں اس حوالے سے تفصیلی ذکر موجود ہے۔ جنرل شجاع پاشا کے دور میں تین پاک امریکا فیوژن سیل بند کئے گئے۔ ایک نامعلوم امریکی افسرکاحوالہ دیتے ہوئے مصنف نے پاکستان کے اندر امریکی انٹیلی جنس سرویلنس کے موضوع کو بھی چھیڑا اور کہا کہ امریکا کی پاکستان کے کئی اداروں تک رسائی تھی۔

جنرل شجاع پاشا کے بعد آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کو ملک کے مقامی ایشوز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا زیادہ تر وقت 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سیاسی بحران میں گزرا۔ شجاع پاشا اور ظہیرالاسلام دونوں کے نام اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف گلی کوچوں میں ہو نے والی مخالفت سے جوڑے جاتے ہیں۔ گو کہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔ ظہیرالاسلام آئی ایس آئی کے ونگز یا ڈائریکٹوریٹس کے بھی سربراہ رہے اور کور کمانڈر کی حیثیت سے کراچی کی ہنگامہ خیز سیاست میں بھی رہے۔ واضح رہےکہ ظہیرالاسلام اور احمد شجاع پاشا نے سروس میں اپنے کردار کے حوالےسے کوئی مؤقف نہیں دیا۔

شجاع نواز کا کہنا ہے کہ شجاع پاشا کے بعد ظہیرالاسلام کی بھی امریکا کی طرف سے نگرانی جاری رہی۔آئی ایس آئی کے ایک سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اختر امریکی تربیت یافتہ افسر تھے جن کے اپنے امریکی ہم منصبوں سے خوشگوار تعلقات تھے تاہم بات کرنے والوں پر اپنا تاثر چھوڑنے کے حوالے سے انہیں جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ خصوصاً ایسے موقع پرجب افغان جنگ گفتگو کاموضوع ہو۔

ایک امریکی افسر کے مطابق افغان مفاہمت کے موضوع پر گفتگو میں رضوان اختر افغان طالبان کمانڈرز کے نام بھول گئے۔ امریکیوں کی جانب سے انہیں تنقید کابھی سامنا ہوتا۔ وہ ایک دستیاب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تھے۔ کراچی میں اکثر دکھائی دیتے جہاں وہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز بھی تعینات رہے۔

شجاع نواز کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو آگاہ کئے بغیرکراچی آپریشن کا چارج سنبھال لیا تھا۔ اپنی عام دستیابی کی حکمت عملی کےباعث وہ آئی ایس آئی اور حتی کہ فوج میں غیر مقبول ہوگئے۔

رضوان اختر کی آئی ایس آئی اور بعد ازاں فوج سے اخراج کی تفصیلات بتاتے ہوئے شجاع نواز کے مطابق رضوان اختر آرمی چیف جنرل باجوہ کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور انہیں استعفی دے کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ ان کی جگہ امریکی تربیت یافتہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے لی۔ وہ کراچی کے بڑے متحرک کور کمانڈر رہے اور امریکی وار کالج کارلائل سے گریجویٹ ہیں۔