جرمن جمہوریت میں انتقال اقتدار کا فن ایک ’قابل فخر روایت‘

Merkel and Scholz

Merkel and Scholz

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں ہر چار سال بعد قومی انتخابات کے نتیجے میں انتقال اقتدار کا فن ’جمہوریت کی بہترین تشہیر‘ اور ایک ’قابل فخر روایت‘ ہے۔ یہ بات بنڈس ٹاگ کے رکن یوہان واڈےپُول نے ڈوئچے ویلے ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔

یوہان واڈےپُول ایک تجربہ کار قدامت پسند رکن پارلیمان ہیں، جن کا تعلق سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) سے ہے۔ انہوں نے جمعرات تیس دسمبر کو ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی میں قومی انتخابات کے بعد ہر بار جس طرح اقتدار پرانی حکومت سے نئی حکومت کو منتقل کیا جاتا ہے، اسے ‘جمہوریت کی بہترین تشہیر‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔

امریکی جمہوریت کے لیے ‘افسوس ناک واقعات‘
جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کے رکن واڈےپُول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ عام انتخابات میں سی ڈی یو اور صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) دوسرے نمبر پر رہیں۔ اسی لیے آج ہم بنڈس ٹاگ میں اپوزیشن میں ہیں۔ لیکن جس طرح جرمنی میں ستمبر میں ہونے والے وفاقی الیکشن کے بعد دسمبر کے اوائل تک عبوری دور میں حکومتی معاملات چلائے گئے اور جس طرح گزشتہ سے موجودہ حکومت کو اقتدار منتقل ہوا، اس پر مجھے ذاتی طور پر بھی فخر ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ امریکا جیسے ملک میں بھی رواں برس کے آغاز پر انتقال اقتدار کےجمہوری عمل میں کس طرح کے افسوس ناک واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔‘‘

انگیلا میرکل جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر ہیں۔ یہ سولہ سال تک جرمن چانسلر رہی ہیں۔ اس سال جرمنی میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ نئی حکومت کے قیام تک میرکل ملک کی چانسلر رہیں گی۔

اولاف شولس کی کامیابی کی وضاحت
یوہان واڈے پُول نے ڈی ڈبلیو ٹی وی کو بتایا کہ انگیلا میرکل کی قیادت میں گزشتہ حکومت ایک وسیع تر مخلوط حکومت تھی، جس میں موجودہ چانسلر اولاف شولس وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ کئی سال تک میرکل کابینہ میں سینیئر وزیر کے طور پر شامل رہنے کے بعد شولس اور میرکل کی سیاسی سوچ اور رویے ایک دوسرے کے کافی قریب آ گئے تھے، ’’اسی لیے ستمبر میں الیکشن کے نتیجے میں شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال پارٹی سی ایس یو کی جگہ پارلیمان میں سب سے بڑی طاقت بن کر ابھری اور پھر ایس پی ڈی گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر نئی وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘

کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔

میرکل کی جماعت کی انتخابی ناکامی کا سبب
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رکن پارلیمان واڈےپُول نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ گزشتہ انتخابات میں جرمن عوام نے کسی تبدیلی کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ وہ کسی ایسی شخصیت کو نئے وفاقی چانسلر کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، جس کی سیاسی اور قائدانہ صلاحیتیں انگیلا میرکل سے ملتی جلتی ہوں۔

انہوں نے کہا، ”گزشتہ انتخابات میں جرمن ووٹروں کو سوشل ڈیموکریٹس اور کرسچن ڈیموکریٹس کے مابین جماعتی فرق کے باوجود اولاف شولس انگیلا میرکل کے طرز سیاست کے قریب تر نظر آئے، اسی لیے ایس پی ڈی کو فتح حاصل ہوئی اور شولس نئے جرمن چانسلر بن گئے۔‘‘

واڈےپُول کے مطابق، ”انگیلا میرکل نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ مزید ایک مرتبہ چانسلر نہیں بننا چاہتیں۔ لیکن میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو شکست اس لیے بھی ہوئی کہ ہماری پارٹی کے پاس کوئی ایسی لیڈرشپ یا پارٹی پروگرام ہی نہیں تھے، جن کی مدد سے سولہ سال تک اقتدار میں رہنے والی چانسلر انگیلا میرکل کی سیاست کے تسلسل کی ضمانت دے کر کرسچن ڈیموکریٹک یونین جرمن ووٹروں کو قائل کر پاتی۔‘‘