جرمنی نے بھی روسی سفارت کار کو بے دخل کر دیا

Germany Russian Diplomat Deported

Germany Russian Diplomat Deported

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) روس کی جانب سے یورپی سفارت کاروں کو گزشتہ ہفتے بے دخل کر دینے کے جواب میں جرمنی نے ایک روسی سفارت کار کو’’ناپسندیدہ شخص“ قرار دے دیا ہے۔ پولینڈ اور سویڈن نے بھی اسی طرح کے اعلانات کیے ہیں۔

جرمنی، پولینڈ اور سویڈن نے ماسکو کی جانب سے ان کے سفارت کاروں کو گزشتہ ہفتے روس سے بے دخل کردیے جانے کے جواب میں پیر کے روز اپنے اپنے ملکوں سے روسی سفارت کاروں کو بے دخل کردیا۔

جرمنی نے برلن میں روسی سفارت خانے کے ایک فرد کو”نا پسندیدہ شخص” قرار دیا۔

جرمن وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ”وفاقی دفتر خارجہ نے برلن میں روسی سفارت خانے کے ایک ملازم کو’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دیا ہے۔“ بیان میں مزید کہا گیا ہے”روس نے یورپی یونین کے کئی سفارت کاروں کو بے دخل کردیا تھا جن میں ایک جرمن سفارت کار بھی شامل تھے۔ اس کا یہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں تھا۔“

جرمن دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے ”جرمن سفارت کار برموقع ہونے والی پیش رفت کے بار ے میں خبر دینے کی صرف اپنی قانونی طور پر ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔”

سویڈن نے روس کو مطلع کر دیا ہے کہ روسی سفارت خانے کے ایک اسٹاف کو سویڈن چھوڑ دینے کے لیے کہا گیا ہے۔

وزیر خارجہ این لیند نے ٹوئٹ کرکے بتایا”یہ سویڈش سفارت کار، جو صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے، کو بے دخل کرنے کے ناقابل قبول فیصلے کا واضح جواب ہے۔”

دریں اثنا پولینڈ نے مغربی شہر پوزنان میں واقع روسی قونصل خانے کے ایک اہلکار کو ملک چھوڑ دینے کے لیے کہا ہے۔

پولینڈ کی وزارت خارجہ نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا”وزارت خارجہ نے یہ فیصلہ جوابی کارروائی کے اصول اور جرمنی اور سویڈن کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد کیا ہے۔ پوزنان میں روسی قونصل خانے کے ایک اہلکار کو نا پسندیدہ شخص قرار دیا گیا ہے۔”

ماسکو نے اپنے سفارت کاروں کی بے دخلی کے فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ”بے سر و پا‘‘قرار دیا۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے سرکاری نیوز چینل روسیا 1 سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”پولینڈ، جرمنی اور سویڈن کا یہ فیصلہ بے سروپا اور غیر دوستانہ ہے اور ہمارے ملک کے حوالے سے مغرب کے اقدامات کے سلسلے کی کڑی ہے جسے ہم اپنے داخلی معاملات میں مداخلت سمجھتے ہیں۔”

روس کا کہناہے کہ اس نے جن یورپی سفارت کاروں کو بے دخل کیا تھا وہ کریملن کے سخت ناقد اورجیل میں بند الیکسی نوالنی کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شریک ہوئے تھے۔ جرمنی، پولینڈ اور سویڈن ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان ملکوں کا کہنا ہے کہ ان کے نمائندے مظاہروں میں شرکاء کے طور پر نہیں بلکہ صرف مشاہد کے طور پر موجود تھے۔

روس کے سرکاری ٹیلی ویزن پر نشر کی گئی خبروں میں بے دخل سفارت کاروں کو مجرم کے طورپر پیش کیا گیا۔ ان کے چہروں کی نشاندہی کرتے ہوئے دکھا یا گیا کہ وہ مظاہروں کی نگرانی کر رہے تھے۔ ان سفارت کاروں کے نام اور ان کے عہدے بھی بتائے گئے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”روس نے یہ بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ ان حرکتوں کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔”

الیکسی نوالنی کی حمایت میں پورے روس میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

یورپی یونین کا روس کے خلاف پابندی پر غور
الیکسی نوالنی کی گرفتاری اور جیل میں ڈالنے کے بعد سے حالیہ ہفتوں کے دوران روس اور یورپی یونین کے مابین تعلقات میں تلخی پیدا ہوگئی ہے۔

نوالنی نوویچوک زہر سے متاثر ہونے پر کئی ماہ تک جرمنی میں علاج کے بعد 17 جنوری کو ماسکو لوٹے تھے لیکن انہیں وہاں فوراً گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد پورے روس میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حکومت دس ہزار سے زائد مظاہرین کو اب تک گرفتار کر چکی ہے۔

یورپی کمیشن کے سربراہ جوزف بوریل 22 فروری کو 27 رکنی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کرنے والے ہیں جس میں ماسکو کے خلاف نئی پابندیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ تاہم روس کے خلاف پابندی عائد کرنے کے لیے یورپی یونین کے اراکین کے مکمل اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔

روس نے جمعے کے روز یورپی سفارت کاروں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب بوریل روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ بوریل نے بعد میں کہا تھا کہ انہیں سفارت کاروں کی بے دخلی کا علم سوشل میڈیا سے ہوا۔

بوریل نے ماسکو سے واپسی پر اپنے ایک بلاگ میں لکھا”اس دورے کے دوران روسی حکام نے جو پیغام دیا ہے اس سے اس امر کی تصدیق ہو گئی ہے کہ یورپ اور روس ایک دوسرے سے الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ روس دھیرے دھیر ے خود کو یورپ سے منقطع کرتا جا رہا ہے اور جمہوری قدروں کو حقیقی خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔”