کیونکہ میں لڑکی نہیں

Girl

Girl

تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور
ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں نوجوان لڑکیوں کی اکثریت جنسی زیادتی کے خوف کی وجہ سے ڈری اور سہمی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لڑکیاں یہ سوچتی ہیں کہ انھیں دنیا میں آزادی کے ساتھ، اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے کا کوئی حق نہیں۔ لڑکیوں کے حقوق اور بااختیار بنانے کے حوالے سے ایک تحقیق ”پلان انٹرنیشنل ”کی جانب سے ”کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں”کے عنوان سے ہوئی۔

حاصل ہونے والے نتائج میں جو حقائق سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق پسماندہ، غریب ترین علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں دنیا کی کم تر مخلوق تصورکی جاتی ہیں جنھیں صرف عورت ہونے کی وجہ سے اپنی بقا اور ترقی کیلئے شدید ترین رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے۔۔ہیئر اووروائسسز کے نام سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ایشیا، جنوبی امریکہ اور افریقہ سمیت 11 ممالک میں 12 سے 16 سال عمرکی ہزاروں لڑکیوں کے روزمرہ کے تجربات اور اسکول میں صنفی مساوات کے بارے میں براہ راست سوالات پوچھے گئے۔تحقیق میں شامل لڑکیوں کی اکثریت نے بتایا کہ وہ روزمرہ کی ناانصافیوں ،مشکلات اور جنسی تشدد کے حوالے اپنی تکالیف اور جذبات کا اظہار کرنے میں شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔

تحقیق میں سامنے آیاکہ دور حاضر میں لڑکیوں کے حقوق میں بہتر قانون سازی کے باوجود عدم تحفظ اورجنسی زیادتی کا خوف مسلسل برقرار ہے ۔بنگلہ دیشی 80فیصد اورایکواڈورسے تعلق رکھنے والی 77 فیصد لڑکیوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لڑکیوں کو اپنے ماضی،حال اور مستقبل میں ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جو انھیں ہر وقت بے اختیار زندگی گزارنے پر مجبور رکھتے ہیں، انھیں اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں اس قدر مشکلات درپیش ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اُٹھ،بیٹھ بھی نہیں پاتیں، یہاں تک کہ شادی کے بعدجس گھر، خاندان اور شوہر کے ساتھ لڑکیوں کوزندگی گزارنی ہوتی ہے وہ شادی سے پہلے اُن کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پاتیں۔

اُن کی شادی کے بعد دنیا ہی بدل جاتی ہے۔دبے، سہمے ماحول میںپل ،بڑھ کر جوان ہونے کے بعد ایک نیا امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ایک تہائی سے زائد لڑکیا ں سکول جاتے وقت خائف رہتی ہیں، اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، جنسی زیادتی کے ڈر سے بیت الخلا ء استعمال کرنے سے ڈرتی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 3میں سے 1لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ لڑکوں اور مردو کے سامنے بات کرنے یا اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتیں۔دوران سفر آوارہ قسم لڑکوں اور مردوں کی طرف سے فحش الفاظ اور دیگر چھیڑچھاڑ دنیا بھر میں معمول بن چکا ہے۔رپورٹ میں بہت سے دیگر مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔دور جدید میں عورت پرہونی والی ناانصافیوں کو دیکھتے ہی اسلام سے پہلے کادور جہالت یاد آیا جاتا ہے۔دور جہالت میں عورت صرف ایک جسم تھی جس کی کوئی قیمت بھی نہ تھی اور اسے اپنی ہی زندگی پر کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا ۔جیسے کوئی بھیڑیابکری پالنے والا جب چاہے جہاں چاہے باندھ دے، جب چاہے جسے چاہے بیچ دے اور جب چاہے ذبح کر دے۔

Girl Rape

Girl Rape

عورت دور جہالت میں عرب اور یونانی معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ تھی۔جاہل لوگ بیٹیوں کو عار سمجھ کر پیدا ہوتے ہی قتل کردیتے۔ایک مرد جتنی عورتوں سے چاہے شادی کر لیتا۔ باپ کی بیوہ ورثے میں بڑے بیٹے کی داشتہ بن جاتی، عورت کے لیے اس معاشرے میں کوئی عز ت واحترام نہ تھا۔عورت کا مقام پالتوں جانور سے بھی کم تھا۔جائیداد میں عورت کا کوئی حصہ نہیں تھا۔شعر و شاعری میں محبوبہ کا نام ننگے الفاظ میںلیا جاتا اور اس گندی حرکت پر فخر کیا جاتا۔بے حیائی اورفسق وفجورکابازار گرم تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب نبی حضرت محمدۖ نے اہل عرب کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایااور بتایا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔اس وقت اہل عرب جوجانوروں کی سی زندگی بسر کیا کرتے تھے اللہ کے نبیۖنے انھیں اسلام کی دعوت دی اور انسانیت کے تقاضے بتائے جس میں عورت کی عزت واحترام لازم کرکے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت میں ایسا مقام عطا فرمایا جسے قائم رکھنے اور دشمنوں سے بچاتے ہوئے باپ،بھائی اور خاوند اپنی جان تک قربان کرنے لگے۔اسلام نے وراثت میں عورت کو حصہ دے کر اسے دنیا میں جینے کا حق دے دیا۔

وراثت میں حصہ دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عورت کو معاشرتی برائی بننے سے روکا جاسکے، تاکہ عورت بے حیائی، فحاشی، بدکاری اور جسم فروشی کو اپنا ذریعہ معاش نہ بنائے۔آج دور جدید میں صرف عورت ہی نہیں پوری انسانیت مشکل میں ہے۔جس معاشرے میں ماں کی عزت محفوظ نہیں وہ معاشرہ جنگل سے بھی بدتر ہے ۔جہاں بیٹیاں سکول و کالج جاتے وقت خوف کھائیں اُس معاشرے کی ترقی و خوشحالی کی مثال پیش کرنے کی آج ضرورت نہیں۔ کیونکہ میں لڑکی نہیں اس لئے میں آزاد اور خود مختار زندگی بسر کرتاہوں جس میں مجھے ہر قدم پر عورت کا ساتھ چاہئے جس نے مجھے جنم دیا وہ بھی (ماں)عورت، جنہوں نے ماں کے ساتھ مل کر بچپن میں میری دیکھ بھال کی (بہنیں)وہ بھی عورتیں اور آج جو بیوی کی شکل میں فری کی خادمہ میسر ہے وہ بھی عورت ہے۔عورت اتنی اہم ہونے کے باوجود معاشرے کا نچلا طبقہ ہے وہ بھی آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ ہمارے لئے انتہائی شرمندگی اور نقصان کی بات ہے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com