مفلسی

Poority

Poority

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی

پیاسا تمام رو ز بٹھا تی ہے مُفلسی
بھو کا تمام رات سلاتی ہے مُفلسی

یہ د کھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مُفلسی
جو ا ہل فضل عالم و فاضل کہلا تے ہیں

مُفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی ” الف ” تو اسے “ب ” بتاتے ہیں

و ہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھا تے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی مُفلسی

جب مُفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی
کپڑے پھٹے تو لو گوں میں عزت کہاں ر ہی

وہ قدر زات کی وہ نجابت کہاں رہی
تعظیم اور تو اضع کی بابت کہاں ر ہی

مجلس کی جوتوں پہ بٹھاتی ہے مُفلسی
دنیا میں کے لئے شاہ سے ا ے یار و تا فقیر

خالق نہ مُفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بتاتی ہے اک آن میں حقیر

کیا کیا میں مُفلسی کی خرابی کہوں نظیر
وہ جانے جس کے دل کو جلا تی ہے مُفلسی

نظیر اکبر آبادی