چار حرف اس پر

Karachi Rain

Karachi Rain

تحریر : شاہ بانو میر

کچھ شعبہ حیات ایسے ہیں
کہ
ان میں وقت کے تغیرو تبدل سے بہتری نہیں آتی
بلکہ
نت نئی چالیں ایجاد کر کے اس شعبے کو مزید
خوفناک اور نقصان دہ بنا دیا جاتا ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں
بنی اسرائیل 100
کہہ دو اگر
میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے
تو تم خرچ ہو جانے کے خوف سے ان کو (بند) ہی رکھتے
اور
انسان دل کا بہت تنگ ہے

یہ ہے انسان کی اوقات اور اسکی اصلیت
جسے اللہ پاک نے ببانگ دہل کلام حق میں بیان فرما دیا
اور
اس آیت کا اگر کوئی بہترین تعین کرنا چاہتا ہو
تو
شعبہ سیاست کو چن لے
اللہ اکبر
تاج اور اقتدار کا خوفناک کھیل
سیاست
جس کا سب سے مظلوم مہرہ عوام جو ازل سے پِٹتا ہی آیا ہے
اور
پِٹتے رہنا اسکا مقدر ہے
بنی اسرائیل 82 میں کہ
کہہ دیجیۓ کہ حق آگیا اور باطل نابود ہو گیا
بے شک باطل نابود ہونے کیلئے ہی ہے
سوچیں
کہاں گئے وہ تمام کے تمام
قابیل فرعون نمرود شداد منگول تاتاری یزید؟
کیا آج کوئی ان کا نام لیوا ہے؟
رب کا حکم ہے تو
حق برحق ہو کر رہے گا
آج کیوں آسمان بے بہا برستا چلا جا رہا ہے
سمندر بنے یہ شہر کل تک لوگ دیکھنے کے خواب دیکھتے تھے
آج ناک پر رومال رکھ کر گزرتے ہیں
یہ سیاست ہے
جس کو دور سے دیکھنے کی بجائے
قریب سے ڈوبے ہوئے کراچی میں دیکھ لیں
کلبلاتے اور روتے شہریوں کے نوحے
وزیروں کے زبانی دعوے
سوچتی ہوں
پاکستان ایک ہے یا دو؟
ایک پاکستان وہ ہے
ایک پاکستان کے شہری پانی میں ڈوبے ہوئے غمزدہ نڈھال بھوکے پیاسے ہیں
چھتوں پے بے آسرا بے سہارا بیٹھے
یہ وہی عوام ہے
جس سے ووٹ لے کر ان کو ذلت دی گئی
دوسرا پاکستان ٹی وی پراس عوام کی فکر کی بجائے
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوشاں طبقہ ہے
یہ وہ ہیں
جنکے ہر دور میں چہرے بدلے
نظام نہیں بدلا
سیاستدان
جو اس ملک کی بیماریاں ختم کرنے اور نئی زندگی کا وعدہ کرکے آتے ہیں
مگر یہ کیسی تیمارداری ہے
کہ
مریض جاں بلب ہو گیا؟
اسلئے کہ
سیاست کے کے پاس دل نہیں احساس نہیں رحم نہیں
اپنے اپنے مفادات کے علاوہ
کہیں
نگاہ دوڑا لیں
عوامی مفاد دکھاوے کیلیۓ بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا
باتیں مافیاز کو ختم کرنے کی
اور
گٹھ جوڑ انہی سے جو طاقتور ہے
ہم نے نظام کی تبدیلی کے نعرے سنے
ایک پاکستان
نیا پاکستان سنا
ہوا کیا
بکھرتا گرتا نڈھال کمزور سہاروں پے آنے والا پاکستان؟
ہمارے سامنے ہے
ایسی نقاہت تو کسی دور میں نہیں دیکھی تھی
جیسی اس بے زبان ملک پر اب طاری ہے
ایسی مفلسی کا عالم
آج کے گداگر جو کل تک باعزت شہری تھے
مہنگائی نے ضروریات زندگی اس قدر مہنگی کر دیں
کہ
بڑہاپے کی دہلیز کو عزت سے پار کر کے قبر میں اترنے والے
دو وقت کی روٹی کی خاطر
سڑکوں پر لاش کی طرح پتھرائی نگاہوں سے اپنے خستہ وجود
کے ساتھ ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں؟
یہ ہے اس ملک کی پلید سیاست
انسان کا انسانیت سے گرا دیا جس نے
سیاست نے ہر زمانے میں شیطانیت کو نئےگُرسکھائے
جو مناظر بھیانک خواب بن کر ہمارے چار سو اب موجود ہیں
ایسی سیاست شائد اس ملک میں پہلے کبھی نہ ہوئی ہو
سیاست واحد شعبہ ہے
جس میں کسی سے کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی
وجہ ؟
وہ یہاں موجود ہی اپنی طاقت بڑہانے کیلئے ہیں
موجودہ اور سابقہ سیاست میں
واضح فرق یہی دیکھا گیا کہ
اب چونتیس سال پرانے کیس کھول دیے گئے
اسی سیاست نے
اور
کہیں اپنی ہی حکومت میں اربوں کی ہیرا پھیری اسی غریب عوام کی جیب پر
اور
خاموش روانگی
دوائیوں
بجلی
گیس
چینی
گندم
چاول
لیکن
مجرم کہاں ہے؟
ہمیں مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچانا ہوتا
بلکہ
ہمیں تو غرض ریکارڈ سے ہے
جو اکٹھا کر کے
مستقبل میں سیاسی مخالف سے من چاہی باتیں منوا سکیں
جی ہاں
مجہول سیاسی مقدمہ قائم کر کے
مخالف کی زباں بندی اور دباؤ ڈال کر کرسی پر جم کر بیٹھنا
مقصد رہا ہے
یہی کھیل ہم دیکھتے آئے
پہلے یہ ملک ستر سے کم عمر تھا
ہمت اور حوصلے سے ہر دہشت گردی اور غداری کو برداشت کر کے
اپنے پرچم کی طرح سربلند رہتا تھا
لیکن
بیٹے اتنی من مانی کرتے جائیں
آخر کب تک؟
اور
کتنی دیر
تیر پر تیر برسائے جائیں گے
ہر دور کا ترکش کچھ نئے تیر لے آتا ہے
آج اس ملک کا حال کیا کردیا ہم نے
مستقل چین کہنےکو دوست
مگر
حقیقت میں اس کے طفیلی بن گئے
بھکاری اور بھیک
جیسے ہمارا قومی نشان بنا دیا گیا ہو
کیا یہی وہ غیرت کے سبق تھے
جو ہم نے ماضی میں کنٹینر پر سنے تھے ؟
ہم تو خود اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر عاجز ہیں
ایسے میں کیا امیدیں باندھنی کشمیر کیلیۓ
ہر دور کے حکمران نے کچھ
ایسی غلطیاں کیں جن کو عوام نامی اس مخلوق نے بھگتا
لیکن
اس بار تو ملک کا ملک ہی جیسے گروی رکھ دیا ہو
طّرہ یہ کہ
حکومت اس پر فخر کرتی ہے
وزراء کے پاس سیاسی کارکردگی کے نام پر دھیلہ نہیں ہے
سیاسی عمارت پیِسہ ٹاور کی طرح مڑ کر
بظاہر زمین بوس ہوتا دکھائی دیتی ہے
کمال ہے ناں اس کم بخت سیاست کا
کہیں داخل ہوئی تو کھا گئی گھروں کو
اور
کہیں داخل ہوئی اپنی نسلوں کو چمکا گئی
عوام کی دہائیاں اس وقت دم توڑ جاتی ہیں
جب
مقتدر حضرات پرجوش بحث کرتے سکرین پر ابھرتے ہیں
اس ملک کی سیاست نے ناکامی کا اعلان کرنے میں تامل سے کام کیوں لیا؟
اپنے پیروں پر کھڑا دشمن ملک کیلئے مستقل سردرد
یہ ملک چھوٹا تھا مگر کھوٹا نہیں تھا
اسی ننھے منے سے ملک نے پہاڑ جتنے بلند دشمن کے مقابلے میں
ایٹم بم بنا کر دنیا کو حیران و ششدر کر دیا
اور
آج ایک بار پھر
دنیا حیران و ششدر ہے
جب ہم نقشہ ازخود بناتے ہیں جاری کرتے
اور
اصل جغرافیائی حد وہی پرانے نقشے والی ہے
دوسری جانب ہم ہر لقمہ لیتے ہوئے چین کا نام لینا نہیں بھولتے
کاش
اللہ کا کرتے اور اس پر توکل کرتے صرف زبانی نہیں عملی بھی
یہ قرآن کا راستہ لیتے
پھر دیکھتے
کس کامیاب راستے کی جانب گامزن کرتا ہے
کہ
بھوکے رہ کر ایٹم بم بنانے کا دعویٰ کرنے والے
سب کچھ گنواتے چلے جا رہے ہیں
ہر ناکامی کو نئی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے
خوش فہمیوں کا طلسم کدہ بنادیا گیا
ماضی کی سیاست کی ریشہ دوانیاں تبدیل ہوئیں
آج سیاست محلوں کی غلام گردشوں سے نکل کر
ڈرائینگ رومز کے اے سی میں تیار کی جاتی ہیں
لب کشائی پر تخت دار یا عمر بھر کی اذیت
کیا یہی آج کی مکروہ سیاست ہے؟
کیا یہی اس سیاست کا کامیاب چہرہ ہے؟
کیا یہی تیرِ بے ہدف ہم نے چلا نے تھے
کہ
برسوں کی جدو جہد تک تو ہم شیر کی گرجتے
اور
بادلوں کی طرح برستے رہے
جب منزل اقتدار ملی تو
گلے میں کامیابی کا تمغہ ہمارے نام نہیں
کسی اور ملک کے نام سرعام ہو؟
ہم اینٹ سے اینٹ بجا کر حق لینے والے بھیگی بلی بنے کیسے ؟
اپنے ہی غیور نظریات پر خود کش حملہ کر بیٹھے؟
اگر
اس بدحالی کو دوسری جانب سیاسی جھوٹی لش پش کو ہی سیاست
اور
سیاسی حکمت عملی کہا جاتا ہے
تو
اس پر چار حرف بھیجئے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر