تحریر : رشید احمد نعیم دنیا کا ہر ذی شعوری انسان راحت اور سکون کا طلبگار ہے ہر کسی کو اس کی جستجو اور طلب ہے ۔کوئی اقتدار اور بڑے بڑے عہدوں کا طالب ہے تو کوئی دولت کا پرستار دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو گھر بنانے کی فکر لاحق ہے تو کوئی اُمرا ووزراء سے تعلقات بنانے میں مصروف ہے، کوئی سمجھتا ہے کہ اسے راحت و خوشی تخت و تاج اور بادشاہت سے ملے گی،کسی کا خیال ہے کہ سکون دولت کے انبار سے حا صل ہو گا کوئی قلبی سکون اچھی عمارات یا بچوں کی شرارتوں میں تصور کرتا ہے ۔وسائل اور ذ رائع سب کے مختلف ہیں لیکن مقصد سب کا ایک ہے کہ پر سکون زندگی کے لحمات سے لطف اندوز ہوں۔سکونِ قلب کی خواہش تو سب کو ہے مگر ہم دیکھتے ہیںکہ قلبی اور حقیقی سکون کی دولت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ جو لوگ بظاہر نہایت راحت و آسائش میں دکھائی دیتے ہیں ان کی اندرونی حالت معلوم ہو تو پتا چلتا ہے کہ دنیاکی ساری پریشانیوں کا نشانہ یہی لوگ ہیں۔
حقیقت میں دنیا داروں میں کوئی بھی خوش نہیں ہے اندرونی حالت سب کی پریشان ہے ۔اس واسطے کہ دنیا کی حالت یہ ہے کہ ایک آرزوختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہوجاتی ہے آ ج کا انسان تقدیرپرراضی نہیں ہے اور چاہتا ہے کہ یہ بھی طے ہو جائے اور وہ خواہش بھی پوری ہو جائے ۔سب امیدوں کا پورا ہونا دشوار ہے اس لئے اس کا نتیجہ پریشانی کی صورت میں سامنے آتا ہے آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھیں آپ کہ ہر شخص مضطرب اور پریشان نظر آے گا ۔جسے دیکھیں اُسے روزگار کی ،عزیزواقارب کی اور دوست احباب کی یا حالات کی شکایت کرتا ہوا پائیں گے کسی کو بھی سکون و راحت حاصل نہیں ہے۔
حقیقت تو ہے کے دورِ حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ جمہوریت ہے نہ معاشی مسائل بلکہ سب سے بڑا مسئلہ دل کے سکون اور اطمینان کا فقدان ہے۔ حالا نکہ آج کے انسان کو راحت اور اسائش کے وہ وسائل اور سامان میسر ہے جن کا اُس کے آ با و اجدادنے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا ۔فراٹے بھرتی کاریں ، دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنے والے ہوائی جہاز، نرم و گدازگدے، فرجیں ،ٹی وی ،ائیرکنڈیشنڈ جیسی آرام دہ چیزیں ہمارے ا باواجدادکو کہاں حاصل تھیں،لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے مقابلے میں زیادہ پُرسکون زندگی گزارتے تھے اور ہم راحت کے تمام اسباب کے باوجود مضطرب اور پیشان ہیں ۔بلکہ صورتِ حال تو کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ جن لوگوں کو زیادآسائشیں حاصل ہیں وہ زیادہ پریشان ہیںآپ کو معلوم ہے ہالی وڈ عیش پسندوں کے لیے سب سے بڑی جنت ہے۔
Life
ساری دنیا کے محروم اور پسماندہ لوگ ہالی وڈ کے رہنے والوں پر رشک کرتے ہیں۔لیکن اخبارات ورسائل میں یہ بات آ چکی ہے کہ وہاں کے رہنے والے قابلِ رحم زندگی گزار رہے ہیں ان کے دلوں کا اضطراب اوربے اطمینانی انتہا کو پہنچ چکی ہے ہالی وڈ کے باسی دنیا کی ہر آسائش پا لینے کے بعد بھی اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے یورپ کو بہت قریب سے دیکھا تھا وہ فرماتے ہیں یورپ میں روشنی آج علم و ہنر سے ہے سچ یہ کہ بے چشمہ حیوان ہے یہ ظلمات جو قوم کہ فیضان ِ سماوی سے ہے محروم حداس کے کمالات کی ہے برق و بخارات یہ ایک پرانی کہاوت ہے کہ آبِ حیات بحرِظلمات میں پایا جاتا ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ یورپ عالم ِ ظلمات تو ہے لیکن اس میں آب حیات نہیں ہے جس سے دلوں کو سکون اور اطمینان حاصل ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یورپ والے وحی کے علم سے محروم ہیں۔ اس لیے ان کی یہ ساری ذہانتیں لوہے ،جمادات اور برق و بخارات پر صرف ہو رہی ہیں۔انسان کو انسان بنانے کی طرف اُن کی کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ ان کی ساری صلا حیتیں جمادات کو مختلف شکلیں دینے پر مرکوز ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دورِحا ضر کے انسان کی صبح سے شام تک کی زندگی مشینی بن گئی ہے۔اُس نے پرندوں کی طرح اڑنا مچھلیوں کی طرح تیرنا تو سیکھ لیا لیکن انسانوں کی طرح رہنا نہیں سیکھا۔ مضطر ب اور بے قرارانسان نے دل کا سکون حاصل کرنے کے لیے بے شمار غلط راستے اختیار کئے لیکن اُسے سکون نہ مل سکا۔
کسی نے سوچا کہ راحت اور سکون اقتدار میں ہے مگر اقتدار ملنے کے بعدپتہ چلا کہ یہاں تو ایک لمحے کے لیے بھی سکون نہیں ہے ۔کوئی سمجھتا ہے کہ سکون دولت کی کثرت سے ملتا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کا یہ حال ہے کہ اُنھیں کاروباری اوردوسری پریشانیوں کی وجہ سے راتوں کو نیند نہیں آتی اور وہ خواب آور گولیوں کے بغیر سو نہیں سکتے۔کسی کی سوچ یہ ہے کہ منشیات کے استعمال سے سکون ملتا ہے لیکن کون نہیں جانتاکہ منشیات نے ہزاروں گھرانوں کو تباہ و برباد کر دیااورلاکھوں انسانوں کو موت کے گھا ٹ اُتار دیا ہے ۔یہ تمام ذرائع انسان کو حقیقی خوشی اور سکون نہیں دے سکے اور نہ ہی کبھی دے سکتے ہیں۔
Rest
جبکہ انسان سکون کی تلاش میں مارا ماراپھررہا ہے۔اب خدا کی طرف سے پکار آتی ہے : میرے بندے ! تو نے دولت کے انبار لگا لیے مگر تجھے سکون نہ مل سکا۔ تو نے وزارتیں اور بادشاہتیں حاصل کر لی،تونے رقص و سرور کی محفلیں سجائیں، تو نے فحاشی وعریانی اور بدکاری کی انتہا کر دی، تو نے جوئے و سٹے کا بازار گرم کیا، تو نے ساغر و مینا ،شراب، ہیروئن، چرس،بھنگ اور دیگر منشیات کا استعمال کر کے دیکھ لیا، تو نے نت نئے فیشن اختیار کیے ، تو نے کوہ پیمائی کی مہمیں سر کیں، تو نے کھیلوں میں کمال کر لیا ، تو نے سمندروں اور صحرا ئوں کو چھان مارا ،تو چاند اور ستاروں تک جا پہنچا،تو نے سائنسی علوم سے حیرت انگیز مشینیں بنا لیں مگر یہ سب کچھ بھی تمہارے سکون کا سبب نا بن سکا۔
بھولے بھٹکے انسان! آ میرے دروازے پہ آ، میں ترا رب ہوں ،میں تیری ضروریات کا کفیل اور مالک ہوں۔اے ظلوم و مجہول انسان! تو کتنا پگلا ہے ،انگاروں پہ بیٹھا ہے اور چاہتا ہے کہ ٹھنڈک نصیب ہو ۔گندگی کے ڈھیر پر بیٹھ کر خوشبو کے دلنواز جھونکے کے کا طلبگار ہے۔کانٹوں پہ بستر بچھایا ہے اور چاہتا ہے کہ چُبھن بھی نہ ہو ۔ تیل چھڑک کر تیلی جلاتا ہے اور چاہتا ہے کہ آگ بھی نہ بھڑکے۔
اپنے خالق ومالک کو بھلا رکھا ہے اور چا ہتا ہے کہ مجھ پر پریشانیاں بھی نہ آئیں۔ او میرے بھولے بھالے بندے! تجھے نہ سیم و زر کی چھنا چھن سکون دے سکتی ہے نہ تخت تاج تیرے دل کے اضطراب کو دور کر سکتا ہے اور نہ رقص و سرور یا میوزک تیری قلبی بیماریوں کا علاج ہے نہ فحاشی تجھے مطئمن کر سکتی ہے ۔یاد رکھ! اگر تجھے سکون ملا تو صرف میری یاد کی چھائوں میں ملے گا۔اطمینان ملا تو میرے ذکر کی خوشبو سے ملے گا۔
ALLAH
ارشادِ خدا وندی ہے ” خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ہو تا ہے” ایک دوسری جگہ ارشاد ہو تا ہے کہ ” یاد رکھو! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ مغموم ہوتے ہیں۔ وہ ہیںجو ایمان لائے اور پرہیز رکھتے ہیں ۔ اُن کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے۔اللہ کی باتوں میں کچھ فرق نہیں ہوا کرتا ،یہ بڑی کامیابی ہے۔تم میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کریں اُن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُن کو زمین میں حکومت عطافرمائے گا جیسے اُن سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی اور جس دین کو اُن کے لیے پسند کیاہے اور اُن کے اس خوف کے بعد اس کو مبدل بامن کر دے گا” ارشادِ نبویۖ ہے کہ ” ہر چیز کے لیے صفائی ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی اللہ کا ذکر ہے اور کوئی چیز ذکرِاللہ سے بڑھ کر عذابِ الٰہی سے نجات دلانے والی نہیں ” قرآن و حدیث سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ سکون مادی چیزوں سے نہیں حاصل ہو سکتا۔
بلکہ سکونِ قلب صرف اللہ کے ذکر سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیشک کوئی دولت کے انبار لگا لے ، فحاشی وعریانی کو عام کر دے ، میوزک کی محفلیں سجا لے ، اقتدار میں بڑے بڑے عہدے حاصل کر لے یا منشیات کا استعما ل کر لے مگر دل کو سچی اور حقیقی خوشی اللہ کے ذکر کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔جب تک گناہوں کو نہیں چھوڑا جائے گا پریشانیاں دور نہیں ہو سکتی ہیں۔
اگر یہ عہد کر لیا جائے کہ قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی عمل نہیں کیا جائے گا تو پھر دیکھنا کہ اللہ کی رحمت کس طرح نازل ہوتی ہے ۔کتنا اطمینان اور سکون ملتا ہے ۔گھر جنت کا نقشہ پیش کرنے لگے گا۔رُوکھی سوُکھی روٹی میںوہ لذت نصیب ہوگی جو امراء کو مرغن غذائوں میں نصیب نہیںہوتی اور گھاس کے بستر پر ایسی پر کیف نیند آئے گی جو خدا کے باغیوں کو حریرو کم خواب کے بستر پر نہیں آتی۔