نہ تیرا، نہ میرا

Pakistan

Pakistan

تحریر: اے حق۔ لندن
ہمارے معاشرے میں یہ رسم،عادت یا نفرت کی ایک قسم کہہ لیں،اس قدر تیزی سے جوان ہو رہی ہے کہ اُس کے نقصانات سے آگاہ کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے اور اس پر قابو پانا بھی ناممکن محسوس ہوتا ہے۔وہ عادت ہے”نہ تیرا نہ میرا”یعنی جو چیزخود نہیں پا سکنا وہ کسی اور کی بھی نہ ہونے دینا۔ اسے دوسرے معنوں میں ٹانگ کھینچنا بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ٹانگ کھینچنے کے معاملے میں کُچھ اور عادات شامل ہونے کی وجہ سے 100 فیصد یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دونوں عادتیں ہو بہو ایک جیسی ہیں۔نہ صرف پاکستان میں رہنے والے بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں میں بھی یہ عادات تیزی سے جوانی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔اس عادت کے جوان ہونے کے بعد بڑھاپے کے سفر کو روانہ ہونے سے اس عادت کا انتقال تو ہر گز نہیں ہوگا بلکہ اس کی جگہ عوام الناس کا انتقال ہو سکتا ہے۔

کُچھ ہفتے پہلے میں پاکستان میں تھا ،میں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ گلی محلوں میں لوگ ایک دوسرے سے کھینچا تانی کا عمل کس طرح دوہراتے ہیں۔اگر پھیری والے نے کوئی چیز فروخت کرنی ہے اور وہ آواز لگاتا ہے کہ فلاں چیز لے لو اور آپ کا دل کرے بھی کہ میں اس غریب سے کُچھ لے لوں تو آپکو دائیں یا بائیں سے کوئی نہ کوئی پھونک مار دے گا کہ ‘چھوڑو اِسے یہ تو فضول چیز بیجتا ہے یہی چیز فلاں جگہ سے لے لو وہ ہمارے واقف بھی ہیں’یا پھراگر کوئی ٹیکسی والا سواری ڈھونڈنے کی کوشش میں کامیاب ہونے لگتا ہے تو کوئی دوسرا آکر معاملے میں ٹانگ پھنسادے گا۔

مثلاً اگر ایک سواری کا ٹیکسی والے سے کرایہ طے ہو گیا ہے کہ فلاں جگہ پر 100 روپے لوں گا اور پہنچا دوں گاتو دوسرا ٹیکسی والا بول دے گا مجھے 80دے دینا میں تمہیں وہاں چھوڑ دوں گا۔یا پھر اس سے بھی کم قیمت لگا دی جاتی ہے اور جب وہ 100 روپے مانگنے والا چلا جائے گا تو 80 روپے مانگنے والا بہانے کرے گا کہ 80 میں وارانہیں کھاتا، 90 روپے دے دیجئے گا۔

پھر ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جن کے پاس رکشہ، گاڑی وغیرہ موجود نہیں ہوتی پھر بھی سواری کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس جگہ سے فلاں جگہ جانے میں تو صرف 60 روپے لگنے چاہئیں یا دوسرے ٹیکسی والے 60 لیتے ہیں۔یہ ایک ایسی عادت ہے جو معاشرے میں بھائی چارے اور پیار محبت کی فضاء کا گلہ گھونٹنے میں تیزی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

Society

Society

اگر ہمارے معاشرے سے یہ عادت ختم نہ ہوئی تو اندازہ لگائیں کہ نئی نسل جو کہ اس قدر جدید اور ایڈوانس ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔اس عادت کا تعلق 100 فیصد جھوٹ کے ساتھ ہے۔یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ عادت جھوٹ کی وجہ سے ہی پل رہی ہے۔اصلاح کی اس قدر ضرورت ہے کہ اگر اصلاح نہ ہوئی تو نئی نسل بزرگوں کے احترام کو بھولتے ہوئے معاشرے میں تباہی مچا دے گی۔

جو عزت ،پیار اور بھائی چارہ اس دور میں بچوں کے دلوں میں بڑوں کے لئے موجود ہے وہ آنے والی دو دہائیوں میں بالکل ختم ہو جائے گا۔صدق اور انصاف سے بات کرنے کا رواج ختم ہو جائے گا اور چھینا جھپٹی کا آغاز ہو جائے گا۔اگر ہر کوئی اپنے لیول پر کوشش کرے تو اس ناسور کو معاشرے سے ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے۔

Atta Ul Haq

Atta Ul Haq

تحریر: اے حق۔ لندن