حسینہ واجد میر جعفر کا روپ

Karachi

Karachi

تحریر: سید انور محمود
یہ دسمبر 1971ء کی ایک دوپہر تھی، ابھی مشرقی پاکستان باقی تھا، ہم کراچی کی شارع عراق پار کررہے تھے، میں روڈ پار کر کے پیراڈایز سینما کی طرف پہنچ چکا تھا تو میرئے ساتھ چلتا ہوا نذراسلام بیچ روڈ پر کھڑا ہوا مجھے پکار رہا تھا کہ یہاں آوُ، میں واپس پھر بیچ روڈ پر پہنچ گیا تو نذراسلام سے پوچھا کیا بات ہے یہاں کیوں کھڑئے ہوگے، تو وہ بولا زور زور سے سونگھو اور بتاوُ اس سڑک سے کس چیز کی خوشبو آرہی ہے، میں نے ہنس کر اُسکو جواب دیا کہ یا تو جلے ہوئے ڈیزل کی بو ہے یا پھر گھوڑئے کی لیت کی کیونکہ اس سڑک پر بگھی بھی چلتی ہیں۔ وہ بولا یہ ہی تو بےایمانی ہے تم مغربی پاکستانیوں میں، پٹ سن ہمارا بیچتے ہواورسڑکیں اپنی بنوالیتے ہو، قبول کرو یا نہ کرو تماری ہر سڑک سے ہماری پٹ سن کی بو آتی ہے۔ میں حیران تھا، میں نے نذراسلام سے پوچھا یہ بات تمیں کس نے بتای ہے کہ مشرقی پاکستان کا پٹ سن بکتا ہے اورمغربی پاکستان کی سڑکیں بنتی ہیں۔

وہ بولا اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مشرقی پاکستان میں ہر سال جو سمندری طوفان آتے ہیں اُنکوروکنے کےلیے کوئی کام کیوں نہیں ہوا۔ میں نے اسکو جواب دیا کہ تم اسٹیٹ بنک بلٹین اٹھاکر دیکھ لو ، پاکستان بننے کے بعد سے ابتک مشرقی پاکستان اگرچہ 60 پیسے کماتا ہے مگر اُس پر پورا روپیہ خرچ ہورہا ہے، لیکن یہ گھر کی بات ہے کون کم کمارہا ہے اور کون زیادہ ، دوبھایوں کے درمیان یہ نہیں سوچا جاتا۔ وہ بولا برحال وقت آرہا ہے کہ اب ہم اپنی پٹ سن خود ہی فروخت کرینگے۔ نذر اسلام ایک عام مشرقی پاکستانی تھا اور اس کی نفرت کا آپکو اندازہ ہوجانا چاہیے۔ اب سوچیے ایک بنگالی کا مغربی پاکستان میں رہتے ہوئے نفرت کا یہ حال تھا تو اُس وقت مشرقی پاکستان میں جب سارا کھیل عوامی لیگ کے ہاتھ میں تھا تو عام بنگالی کی ہم سے نفرت کس عروج پر ہوگی۔ اور اس ساری نفرت کے پیچھے ہمارا ازلی دشمن بھارت تھا اور بھارت کا پٹھو تھا غدار شیخ مجیب الرحمان۔

سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش میں آج بھی پچیس فیصد سے زیادہ آبادی ہندوں کی ہے ان ہندوں میں سے اکثریت آج بھی ہندوستان کی وفادار ہے، پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں یہ پروپگنڈا عام تھاکہ مغربی پاکستان ان کو لوٹ رہا ہے. شیخ مجیب الرحمن 1947میں پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کر کے اردو کی مخالفت کرنا شروع کردی جس سے صاف ظاہر تھا کہ شیخ مجیب شروع ہی سے مسلم قومیت کے بجائے بنگالی قومیت کا علمبردار تھا اور اس نے مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح مسلم لیگ کا ساتھ محض اس لیے دیا کہ وہ اس زمانے میں مقبول تحریک تھی۔ اور اس میں شامل ہو کر اقتدار حاصل کیا جاسکتا تھا۔ 1952ء میں جب حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ قائم کی تو شیخ مجیب نے اس کی تشکیل میں حصہ لیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کے زریعے مشرقی پاکستان کو علیدہ کرنے کی سازشیں تیز کردیں۔ 1966 میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں چھ نکات پیش کیے۔ دسمبر 1970 میں جب پاکستان کے عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 162 امیدوار کھڑے کیے، جن میں سے 160 کامیاب ہوئے۔

یہ ایک ناقابل یقین نتیجہ تھا۔ بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی پروپگنڈا ایک بڑا موثر ہتھیار تھا، امریکہ، کنیڈا اور پورئے یورپ میں ہر بنک کے باہر بھارت نے ایک بکس رکھا ہوا تھا جس کے اوپر ایک پوسٹر لگاہوتا تھا جس میں دیکھایا گیا ہوتا تھا کہ پاکستانی فوجی بنگالی عوام کو مارہے ہیں اورنیچے لکھا ہوتا کہ بنگالیوں کی مدد کریں، بھارتی پروپگنڈئے کا مقصد پیسے حاصل کرنا نہیں ہوتا تھالیکن جو بھی ایک سکہ اُس بکس میں ڈالتا تھا ساتھ ہی اسکی سیاسی ہمدردی بھی بھارتی پروپگنڈئے کے ساتھ ہوجاتی تھی اور بھارت کا اصل مقصد بھی یہ ہی تھا۔ جبکہ دوسری طرف پاکستانی سفارت خانوں میں موجود بنگالی سفارتکار مسلسل غداری کا اعلان کررہے تھے اور پروپگنڈئے میں بھی ہم بہت پیچھے تھے۔ یحیی حکومت اس پورئے سانحے کے دوران صرف ایک منظم مظاہرہ 14 اگست1971ء کولندن کے ٹریفیگل اسکوائر میں کراسکی۔

Bangladesh

Bangladesh

جب 1971ء میں بنگلہ دیش بنا تو اس وقت انسانیت کو بربریت میں بدل دیا گیا ۔ ایک طرف جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیمیں البدراورالشمس کے کارکن انسانیت کے خلاف پوری بربریت کے ساتھ انسانوں کا قتل عام کرتے رہے تو دوسری طرف بھارتی فوجیوں نے مکتی باہنی کے بھیس میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ مجیب الرحمان جسکو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا تھااپنی رہائی کے بعد ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک جلسے میں دعوی کررہا تھا کہ 30 لاکھ انسانوں کا قتل ہوا ہے جبکہ 5 لاکھ عورتوں کی آبروزی کی گی ۔ یہ دونوں اعدادوشمار بین الاقوامی طور پرغلط ثابت ہوچکے ہیں۔ جب خانہ جنگی ہوتی ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔

انسانیت کو دونوں طرف سے پامال کیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا خونی سانحہ تھا، پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ایک کتاب “ٹیررز ان ایسٹ پاکستان” چھاپ کر یا تو اپنے سفارت خانوں کے زریعے تقسیم کی یا پھر لندن کے ٹریفیگل اسکوائرکے مظاہرئے میں تقسیم کی، یہ کتاب آج بھی ریکارڈ کے طور پر وزارت اطلاعات میں موجود ہونی چاہیے۔ اس کتاب میں وہ تصاویر موجودتھیں جو انسانیت کو شرمارہی تھیں۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے جارہے تھے ، بچوں کے پیٹوں میں بندوقوں کی سنگین ڈال کر انکو مردہ حالت میں اٹھاکر ناچا جارہا تھا۔ اگر یہ کتاب اُس وقت پاکستان میں منظرعام پر آجاتی تو شاید مغربی پاکستان میں جو بنگالی موجود تھے انکا حفاظت سے یہاں سے جانا ناممکن ہوتا۔

پندرہ اگست 1975ءجو بھارت کی آزادی کا دن ہے مجیب الرحمان اپنےپورے خاندان کے ساتھ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں مارےگے، یہ وہی فوجی تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔ مجیب الرحمان کی دو بیٹیاں ریحانہ اورحسینہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سےبچ گئیں تھیں۔ مجیب الرحمان کی بچ جانے والی ایک بیٹی حسینہ واجد اس وقت بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں ، یہ اپنے باپ سے زیادہ بھارت کی وفادار ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کو کھلے عام ظاہر کرتی ہیں۔ یہ اس سے پہلے بھی اقتدار میں رہیں مگر 2008ء میں اُنکو پہلی مرتبہ دو تہائی کی اکثریت ملی تو اُنہیں یاد آیا کہ 1971ء کے نامکمل انصاف کو پورا کیا جائے، جبکہ مجیب بھٹو کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ 1971ء کے مجرموں کو عام معافی دی جائے گی اور ڈھاکہ پہنچ کر مجیب الرحمان نے اس کا اعلان بھی کیا تھا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ایک خصوصی ٹربیونل 2010 میں قائم کیا تھا جس کا مقصد ان ملزمان پر مقدمہ چلانا تھا جنھوں نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر اس وقت کے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کی مخالفت کی تھی۔ پہلے ان کی تعداد تیس سے چالیس ہزارتھی لیکن اب یہ تعداد سرکاری طور پر سولہ سو کے لگ بھگ ہے۔ عبدالقادر ملا حسینہ واجد کی نفرت کا پہلا شکار بنا۔

ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی ، امریکا ، یورپی یونین، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا اور اقوام متحدہ نے دو ہزار دس میں وار کرائمز ٹریبونل بنانے کا خیر مقدم کیا تھا۔لیکن آج یہ سب تنظیمیں یک زبان ہیں کہ مقدمات انصاف کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں چلائے گئے۔ حسینہ واجد جو بھارت کی وفاداری میں میر جعفر کا روپ دھار کراپنے ہی لوگوں کو پھانسی چڑھارہی ہیں اور پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کررہی ہیں انکو چاہیے کہ بھارت کے بجائے بنگلہ دیش کی وفادار بنیں ورنہ بھارت کی وفاداری کرنے سے صرف میر جعفر ہی بن سکی ہیں اور بھارت سے وفاداری کا صلہ اُنکے خاندان کو بھارت 15 اگست 1975ء کو دئے چکا ہے۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود