خلیفہ چہارم حضرت علی

Hazrat Ali

Hazrat Ali

تحریر : میر افسر امان

علی نام،ابوالحسن اور ابوتراب کنیت،حیدر (شیر) لقب ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت علی ٣٥ ھ میں خلیفہ مسلمین منتخب ہو ئے۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد لوگ اس فکر میں تھے کہ خلیفہ کون ہو گا ۔اس کے لیے مدینہ میں لوگوں سے را ئے لی گئی تمام کی ر ائے تھی کہ خلیفہ مسلمین حضرت علی ہونے چاہییں ۔پھر تمام لوگوں نے بیعت عام کی۔خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ہادی بنا کے بھیجا ہے جو خیر و شر کی وضا حت کرتی ہے ۔خیر کو اختیار کریں اور شر سے کنارہ کش رہیں۔ سب سے فائق حُرمت مسلمان کی ہے۔عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا کرنے میں عُجلت سے کام لیں۔آخرت کا خیال کریں۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں۔رمضان ٢ ھ میں جنگ بدر ہوئی ۔عام جنگ شروع ہونے سے پہلے جب قریش نے جنگ میں للکارا کہ ہمارے مقابلے کے لیے رشتہ داروں کو سامنے لائو۔ وہ ہم سے مقابلہ کریں تو رسول ۖ اللہ نے کہا حضرت حمزہ اٹھو،حضرت عبیدہ اُٹھواور حضرت علی اُٹھو۔ دوبدو لڑا ئی شروع ہوئی۔ حضرت علی نے ولید بن عتبہ کو قتل کیا ۔ جنگ خندق میں دشمن ایک تنگ کنارے سے اپنے گھوڑ ے سمیت اُچھلے اور مدینہ کے اندر داخل ہو گئے۔انہی فوجیوں میں عمرو بن عبدودّ بھی تھا ۔جو اپنے آپ کو تنہا ایک ہزار شہسواروں کے برابر سمجھتا تھا ۔وہ آ کر کھڑا ہوا اور بولا کون ہے جو میرے مقابلہ میں آنے کی ہمّت رکھتا ہے۔اس کے مقابلے کے لیے حضرت علی نکلے اور فرمایا ۔اے عمرو تم نے اللہ سے عہد کیا تھاکہ اگر کسی قریش کے فرد نے تم کو دو چیزوں کی دعوت دی تو تم ایک ضرور قبول کرو گے ۔اس نے کہا بیشک… حضرت علی نے فرمایا میںتم کو اللہ اور اس کے رسولۖ اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔عمرو بولا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت علی نے فرمایا پھر تم کو مقابلہ پر آنے کی دعوت دیتا ہوں۔

عمرو بولا کیوں ؟ میرے بھتیجے ،بھائی کے لڑکے، میں تم کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔ حضرت علی نے فرمایا لیکن میں واللہ تم کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔یہ سن کر اُس کو جوش سا آگیا اپنے گھوڑے سے کود کر اس کی کوچیں کاٹ دیں اور اس کے چہرہ پر ایک ضرب لگائی اور حضرت علی کے سامنے تلوار سونت کر کھڑا ہو گیا ۔دونوں کی تلواریں چلنے لگیںبوڑھے نے پھر وار کیا ۔اتنے میں حضرت علی کی تلوار نے اس کا کام تمام کر دیا۔ابن کثیر کہتے ہیں حضرت علی غزوہ اُحد میں موجود تھے، لشکرے اسلام کا میمنہ سنبھال ہوئے تھے۔ حضرت معصب بن عمیر کی شہادت کے بعد عَلم آپ ہی نے اپنے ہاتھ میں لیا۔اور اُحد کے موقع میں سخت جنگ کی ۔لا تعداد مشرکوں کو ٹھکانے لگایا۔ رسولۖ اللہ کے چہرۂ مبارک سے بہتے ہو ئے خون کو دھویا، کیونکہ جب آپ ۖ پر دشمن نے وار کیا تو سر مبارک پر زخم آ ئے تھے اور آگے کے دو دندانِ مبارک شہید ہو گئے تھے۔اس طرح خیبر کی جنگ میں بھی یہودی شہسوار مرحب کو حضرت علی نے جہنم واصل کیاتھا۔ ان کی امارت کے دوران جب کوفہ کے لوگوں نے شکایت کے اندازمیں کہا کیا بات ہے؟ خلیفہ مسلمین آپ کے دور میں سکون نہیں جیسے آپ سے پہلے خلفاء کے دور میں تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا میں ان کا مشیر تھا اور تم میرے مشیر ہو۔

اس طرح ان کو مدلل جواب دیا ۔ حضرت علی نے حضرت ابو بکر کی بیعت کے بعد مکمل تعاون کیا۔ حضرت ابو سعید الخدری سے روایت ہے حضرت ابوبکر منبر پر چڑھے اور لوگوں پر نظر ڈالی ان میں حضرت علی کو نہیں پایا تو ان کو بلا کر کہا۔ اے رسولۖ اللہ کے عمّ زاد بھائی اور آپ ۖ کے داماد کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو جا ئے ؟ حضرت علی نے کہا مجھے کوئی شکایت نہیں اے خلیفہ رسول ۖ یہ کہہ کر آپ نے بیعت کر لی۔ابن کثیر نے کہا اس واقعہ کا ایک اہم اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ حضرت علی نے پہلے ہی دن بیعت کی ہے۔یا وفات کے دوسرے روز اور یہی حقیقت امر ہے کیونکہ حضرت علی نے کسی وقت حضرت ابوبکر کا ساتھ نہیں چھوڑا اور کسی نماز میں بھی غیرحاضر نہیں رہے۔

مشہور ہے کہ حضرت علی نے ضروری سمجھا کہ حضرت فاطمہ کے احساسات،جذبات کا کسی درجہ لحاظ کریں اس لیے حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی پھر جب فاطمہ کا چھ ماہ بعد انتقال ہو گیا تو حضرت علی نے بر سرِ عام بیعت کی ۔ ابن کثیر اور دوسرے اہل علم کا رُجحان اس طرف ہے یہ دوسری بیعت پہلی بیعت کی توثیق وتجدید تھی۔اس سلسلہ میں صحیحین اور اُن کے علاوہ دوسرے کتابوںمتعدد روائتیں ہیں۔ قناعت پسندی اور مسلمانوں کے بیت المال کا اتنا خیال تھا کہ ان کے دور حکومت میں ایک دہقان نے خوشبو کی ایک شیشی تحفے میں پیش کی جو انہوں نے اپنے پاس نہیں رکھی۔ بلکہ بیت المال میں جمع کروا دی۔

اُن کی شہادت کے بعد اُن کے صاحبزادے حضرت حسن نے خطبہ دیا اور کہاکہ اے لوگوں کل تم سے ایسا شخص جُدا ہوا ہے جس نے سونا چاندی نہیں چھوڑا صرف ٧٠٠ سودرہم اس کی تحویل میں تھے جو اس کو بیت المال کے مقررہ حصہ میں سے ملے تھے ۔یہ تھی چوتھے خلیفہ راشد کی وراثت جو اُن کے صاحبزادے نے بتائی ۔ آج کل کے مسلمان حکمرانوں کے اثاثوں کے متعلق آپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں ۔ حضرت علی کی خلافت چار سال نو ماہ رہی۔ابن مُلجم خارجی کے ہاتھوں ٤٠ ھ میںشہادت پائی۔ اس وقت ان کی عمر٦٣ سال تھی۔اس کے بعد خلفا ء راشدین کا دور ختم ہوا ۔آج بھی مسلمان علماء اپنے واعظ و تقاریرمیں اس سنہری دور کا ذکر عام مسلمانوں سے مسلسل کرتے رہتے ہیںاور دنیا کے مسلمانوں کی دلی خواہش کہ مدینہ کی حکومت الہےٰا جو رسولۖ اللہ صلی علیہ و سلم نے قائم کی تھی اور جس کو خلفاء راشیدین نے اس دنیا میں کامیابی سے چلا کر دکھا یاتھاکا وہ دور پھر سے آ ئے اور دنیا سکھ کا سانس لے امن وامان ہو۔خلفائے راشدین کی حکومت میں کسی فرد یا قبیلہ کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت تھی۔خزانہ عوام کا تھا نہ کہ خلیفہ یا کسی قبیلے کا۔ علم کی قدر تھی۔

ایک دوسرے کا احترام تھا۔ آزاد رائے سے انتخاب ہوتا تھا۔ محبت تھی،عد ل و انصاف تھا،عزت ِ نفس تھی،مشاورت تھی،برابری کے حقوق تھے۔،خواتین کے بطور انسان برابر کے حقوق تھے اور ان سے مشاورت کی جاتی تھی ان کی رائے پر عمل کیا جاتا تھا۔ امن وامان تھا ،آسمان سے رزق برس رہا تھا، زمین نے اپنے خزانے اُگل دیے تھے۔ خلفائے راشدین نے موجودہ دور کے مسلمان حکمرانوں کی طرح دولت جمع نہیں کی تھی بلکہ دولت کی مساویانہ تقسیم کا انتظام رائج کیا گیا تھا۔ لوگ زکوٰة ہاتھوں میں لیے لیے پھرتے تھے مگر اتنی خوشحالی تھی کہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ اسی طرز کی اسلامی فلاحی ریاست ، مسلمانوں کو قائم کرنا چاہیے۔ اب بھی علماء اپنے واعظ و تقاریروں میں اس سنہری دور کا ذکر عام مسلمانوں سے مسلسل کرتے رہتے ہیںاور دنیا کے مسلمانوں کی دلی خواہش ہے کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست جو رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے قائم کی تھی اور جس کو خلفائے راشیدین نے اس دنیا میں کامیابی سے چلا کر دکھا یا تھاکا وہ دور پھر سے مسلمان ملکوں میں قائم ہو اور مسلمان دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں اور سکھ کا سانس بھی لیں۔اس وقت دنیا کے دو سو ملک کررونا وائرس کی زد میں ہے۔ معیشت کا پہّیہ رک گیا ہے۔ انسانیت سسک رہی ہے۔ دنیا میںہر طر ف مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ کیا ظالموں کے لیے اللہ کی طرف سے وارنیگ نہیںہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم ختم کر دیں۔ ظالموں کا چاہیے کہ وہ پر ظلم ختم کریں ۔ہر کسی کو آزادی سے زندہ رہنے کاحق دیں۔ جیسے مدینے کی اسلامی ریاست اور بعد میں خلفائے راشدین کے سنہری دور میں تھا۔اللہ دنیا کو اس آزمایش سے نکالے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان