دل ڈھونڈتا ہے

Money

Money

اے صاحب کمال و صاحب خرد انسان تو اپنے آپ کو کتنا innovative اور uptodate سمجھتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ اپنے حریف کو مات دے گیا لیکن کیا کبھی تو جان پایا؟ کہ زمانے ادائے دلبر با دیکھا کے تیرا سب کچھ لوٹ لے گیا۔ یہی سوال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جدت پسندی کہ اس دوڑ میں نہ صرف ہم اپنی مذہبی و صقافتی اقتدار کو فراموش کربیٹھے ہیں۔بلکہ خود بھی robotic life پر مجبور ہوگئے ہیں جس کو دیکھو feeling less selfish اور velueless د کھائی دیتا ہے۔ گوشت پوشت کا انسان بھی indeed needمبتلا ہو گیا۔ جس کی لاٹھی اِس کی بھینس کا دور دورہ ہے۔ قانون شکنی معمول بنتا جا رہا ہے۔

چھینا چھپٹی، خونی رشتوں میں ملاوٹ، ہر سو دھوکہ دہی اور دولت کی ہوس حقیقی والدین تک کے قتل پر اکسا رہی ہے۔زمانہ جاہلیت کا دور دورہ ہے۔بلکہ ویسے ہی کھبی پانی پینے پلانے پر جھگڑا، کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پر جھگڑا۔یہاں آپ سے یہی سوال ہے کہ کیا یہ تحفة جدید قابل قبول ہونا چاہئے؟میرا جواب تو نفی میں ہے۔

اے اہل نظر اے اہل ہنر
اک بار تومڑ کے دیکھ ذرا
گم ہوکے ریگنی جاناں میں
تونے کیا کھویا تونے کیا پایا

زمانہ حال میں سبھی حصول زر میں سرگرداں۔ انجام آخرت سے نابلد بھاگتے دیکھائی دیتے ہیں۔تو پھر بھاگ اے بنی نو انسان بھاگ آخر کب تک ۔یقینا وہ روز آکر رہے گاجب تیری دولت، تیری تیزیاں اور تیرا جاہ و جلال سب نظریں پھیر لیں گے اور تُو تن تنہا رہ جائے گا۔

آہ اس چکا چوندنے نہ صرف اذہان بلکہ دلوں پر بھی یخ بستہ جذابات کی ملمع کاری کر دی ہے۔ہر جانب بینا، نابینہ ہے۔زندہ دل پردہ ہے کہتے ہیں کہ جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی بالکل ایسے ہی کچھ صاحب دل افراد ہمارے معاشرے میں نوادرات کی طرح موجود ہیں۔

Load Shedding

Load Shedding

جنہیں پیپل کی ٹھنڈی چھائوں، کوئل کی راگنی، باغوں می جھولے اور سائن میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو چاہئے۔وہ آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ شام ہوتے ہی افراد خانہ اور دوست احبا ب صہنوں یاچوپالوں میں چار پائیاں بچھاکے محو گفتگوہوں۔کنویں کے پانی سے خود سیر کریں۔ لوڈشیڈنگ کے خوف سے بے خبر درختوں کی ہوائیں، ان کی جسموں کو راحت بخشے، سکھیاں ٹپے گائیں، گڈیوں کی شادیاں کریں۔

کچے صہنوں ککلیاں ڈالیں،بڑوں بزرگوں کے سامنے آتے ہی سب کی آوازیں اور نظریں ادب جھک جائیں ۔رات ہوتے ہی آسمان ستاروں کی قندیلوں سے روشن ہوجائے ،سب کو دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی پریاں اپنے آغوش میں لے لیں۔

حساس ِ برتری و حساس کمتری ناپید ہوجائے ۔لیکن کیا کیجئے کہ یہ خواہشات تو صرف دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ کیونکہ ہر شعبہ زندگی میں برتری چاہتا ہے ۔انسان کے جینے کیلئے انواع اقسام کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

حالانکہ روح انسانی تو ازل سے صاحب سکون ہے تو پھر جسد خاکی کیوں بے چین و بے قرار ہے۔یہاں فرق صرف سوچ کا آتا ہے کیونکہ انسا ن کو وہی کچھ ملتا ہے جس کیلئے وہ جدوجہد کرتا ہے۔تو پھر سکون قلب ہمارا مطمع نظر کیوں نہیں اپنی اقداروروایات کی بھالی کیوں نہیں۔۔۔

Here we can certainly achieve our status and values only through our will power because . where there is a will there a way اہلیان وطن سے میری یہی گزارش ہے کہ be bold and
اُٹھ باندح کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے

Amina Falak Sher

Amina Falak Sher

تحریر: امینہ فلک شیر
amainafalaksher@yahoo.com