اندھی بہری….. U.N.O اگر اس تک….!!!

Christians Capal

Christians Capal

تحریر: بدر سرحدی

کوٹ رادھا کشن کے گاؤں کارک آباد رہائشی غریب مسیحی جو چک ١٥٩ میں یوسف گجر کے بھٹہ پر پتھیر کرتے تھے اِس غریب شپزاد مسیح پر الزام لگایا گیا کہ انہوں قرآن مجید کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے پھر کیا تھا کہ قریبی مساجد کے سپیکر آن ہوگئے اور اعلان ہونے لگے پکڑو جانے نہ پائیں یہ تماری دینی غیرت کا تقاضہ ہے پھر کیا تھا آن واحد میں ہزاروں کی تعداد میں جنت کے متلاشی اور رحمت الآ لمینۖ کے متوالے جمع ہوکر یوسف گجر کے اینٹوں کے بھٹہ پر پہنچے، پہلے سے کئے گئے منصوبہ کے تحت ٤ نومبر دسویں محرم کا دن صبح نماز فجر کے بعد کا وقت مقرر کیا گیا اور پھر کسی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی کہ ان کا مسیحی ہونا ہی ناقابل معافی جرم تھا چنانچہ دونوں شہزاد مسیح اُس کی بیوی شمع کو پہلے زدو کوب کیا پھر اٹھا کر جلتے بھٹہ میں پھینک د یا جہاں اتنی آگ ہوتی ہے کے پکی ہوئی اینٹیں بھی پگھل جاتی ہیںاور یہ تو گوشت پوست کے انسان تھے بے شک اُن مسلمانوں کے نزدیک وہ کافر ہی تھے

اگر وہ انسان ہوتے تو پولیس کی موجودگی میں ایسی بربریت نہ ہوتی ، اِس ظالمانہ اندوہناک منظر دیکھ کر دوزخ کے دروازے پر شیاطین کی ارواح ،نیرواور ہلاکو اور چنگیز کی روحیں بھی تڑپ گئی ہونگی ….بے شک پولیس کی مدعیت میں ایف آئی ار درج ہوئی اِس کے کوئی معنی نہیں …. اور پہلی پیشی پر چار ملزموں کا پولیس کو ریمانڈ دیا گیا باقی ٣٩ جیل بھیج دئے ا ن سطور کی اشاعت تک وہ لوگ گھروں کو جا چکے ہونگے پھر حسب روایت،رات گئی بات گئی اور بھولی بسری داستان ہوگی کہ پولیس کی مدعیت کی ایف آئی آر کا یہی حشر ہوتا ہے ..!! مگر پاکستان میں مسیحیوں کے خلاف بربریت کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں ، زیادہ دور نہیں پاکستان کی تاریخ ایسے بہیمانا قتال سے بھری پڑی ہے یہاں صرف گوجرہ کی اندوناک کہانی … ٤، اگست ٢٠٠٩ میں گوجرہ میں آٹھ نہتے مسیحی اپنے گھروں میں زندہ جلا دئے گئے

اِس واقع پر اسلامی کانفرنس تنظیم کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلو نے گوجرہ واقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اِس طرح کے واقعات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ،حکومت پاکستان واقع کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ، ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کرے ، وزیر اعلے ٰ میاں شہباز شریف گوجرہ پہنچے اور متاثرہ خاندانوں میں امدادی چیک تقسیم کئے، کیتھولک چرچ سمندری روڈ گوجرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا شر پسندو کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ،عدالتی کاروائی شفاف ہوگی اور اگر زمہ داروں کو عبرت کا نشان نہ بنایا تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں .. تاہم حکومت ایسی کاروائی کی سخت مخالف ہے جس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں ،یہاں ایک اور بات جو قابل غور و فکر کہ کہ کوئی سچا مسلمان یا مسیحی اپنے بھایوں کی دل آزاری کا سوچ بھی نہیں سکتا

مگر ا نتہا پسند مولویوں کو ایسے واقعات میں تشدد پر عوام کواکسانے اور مشتعل کرنے پر اُن کے خلاف مْقدمات قائم کرنے کی بجائے الٹا ١٢٩ مسیحیوں کے خلاف جوابی پولیس کیس دائر کر دیا گیا اِس وقت حکومت نے مولوی حضرات کو یہ پیغام دیا کے الٹا مسیحیوں کو بھی سزا دی جا سکتی ہے ….. ! لیکن… پھر رات گئی بات گئی ،اورآج یہ بھولی بسری داستان ہے، پھر سمبڑیال کے قریب جیٹھی کے کا واقع ایک مسیحی کو ایسے ہی الزام میں جس میں کچھ اور واقع بھی… جیل میںقتل کر دیا اور متشہر کیا کہ اُس نے خود کشی کی جیٹھی کے گاؤں میںایک چرچ کو بھی جلا دیا گیا ،مسیحیوں پر تشدد کیا ،کتنے ہی واقعات کس کو یا کریںاور …اس سانحہ کو دوہرانے کا مقصد یہ کہ اس کی روشنی میں بہیمانہ انسانیت سوزقتل جس میں دو کیڑے مکوڑے جو مسیحی تھے کو محض ایک الزام لگاکر کوئی تحقیق و تفتیش کے کہ سچ کیا ہے ،شہزاد اورشمع کو پولیس کی موجودگی میں زندہ جلادیا گیا، حسب روایت میاں شہباز شریف وزیر اعلےٰ پنجاب ٧ نومبرکو کلارک آبادمیں جلائے گئے

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

شہزاد مسیح اور شمع بی بی کے گھر گئے مظلوم خاندان سے گہرے دکھ ، ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اپ کو ہر صورت انصاف ملے گا اور ہوتا ہوأ نظر آئے گا (جو آج تک نظر نہیں آیا خصوصاغریبوں کے لئے اگر ایک دفع بھی ہوتا نظر آتا تو پھر آج یہ اندوہناک واقع نہ ہوتا جو پوری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کی رسوائی کا سبب بنا …)ملزم قرار واقعی سزا سے بچ نہیں سکیں گے میاں صاحب بھولگئے کہ انہوں گوجرہ میں کہا تھا….! میاں شہباز شریف نے یتیم بچوں کے لئے پچاس لاکھ کی مالی امداد اور دس ایکڑ اراضی دینے کا اعلان بھی کیا نیز تینوں بچوں کی کفالت ھکومت پنجاب کرے گی ا گر تو یہ اعلان سانحہ گوجرہ کی طرز کا اعلان ہے تو اس کا بار گاہ ایزدی میں کوئی اجر نہی ہوگا اور اگریہ صدق دل سے انسانی ہمدردی سے کیا اور ا س عمل ہوأ تو میرا ایمان ہے کہ بارگاہ خداوندی میں بہت بڑا اجر ہو گا ،اوراگر محض دکھلاوا ہو أ تو پہلی نیکیا ںبھی کھا جائے گا

اسی بہیمانا قتل ناحق پر سُنی اتحاد کونسل کے جید علماء ٥٠ مفتیان کرام نے زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کے قتل پر جاری کئے گئے اپنے فتویٰ میں قرار دیا زندہ جلانے کا عمل اسلام کے منافی عمل، اس میں قرآن و سنت کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے بدترین گناہ اور سنگین ترین جرم کا ارتکاب کیا گیا ….شریعت میں محض الزام کی بنیاد پر بغیر تفتیش و تحقیق کے سزا دینے کی اجا زت نہیں ،جرم ثابت ہونے کے بعد بھی سزا دینا عدالت کا کام اور اسپر عمل کرانا ریاست کی زمہ داری ،مسیحی جوڑے کا زندہ جلانے ولوں کا کھیل ختم پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب بنا ہے ،اس واقع سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمن قوتوں کو منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا ہے اب جلائی گئی شمع بی بی کہ والد مختیا رمسیح نے جرمن خبر رساں ادارے ” ڈی ڈبلیو”کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا اپنی بیٹی اور داماد کے قتل کے حوالے سے انصاف کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا

مختیار مسیح نے کہا پولیس کی مدعیت درج مقدمہ قبول نہیں ،میری مدعیت میں پرچہ درج ہونا چاہئے،میری بیٹی اور داماد ہر گزمقدس اوراق کی توہین میں ملوث نہیں بلکہ بھٹہ کے مالک کے ایماں پر کہ لین دین کے ایک تنازعہ کی وجہ سے اُن کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا گیا انہیں اپنے کمرے میں بند کرنے کا مطلب کہ یہ فرار نہ ہو جائیں ،،دو دن پہلے اُن کے خلاف بھٹہ مالک نے منصوبہ بنایاا ور اپنے بھٹہ منشی اور ڈرائیور نے بھٹے پر پھیری لگانے جوسائیکل پر بیچنے آتا ہے کو بتایا اور پھیری والے نے یہ خبر گاؤں میںپھیلائی کے بھٹہ پر پتھیرے نے قرآن کے مقدس اوراک کی بے حرمتی کی ہے اور پھر ….. !! انصاف تو صرف اندھا ہوتا مگر یہ ،”یو این او ” کا بین الااقوامی ادارہ نا صرف اندھا ہے بلکہ بہرہ بھی ہے جسے علم نہیں کے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پرکیا گزر رہی ہے ہندوں تو بڑی تعداد میں بھارت منتقل ہو گئے

مگر یہ ….! اگر ”یو این او ”اندھی اور بہری نہ ہو تو پاکستان میں بے بس عیسایئوں کو پاکستان سے نکال کر یورپ اور امریکہ میں منتقل کر سکتی ہے اتنی ہی تعداد میں اُن ملکوں سے پاکستانیوں کو واپس پاکستان بھیجا جا سکتا ہے ،،یورپ میں تارکین وطن تمام آئینی مرعات حاصل ہیں ،مگر پاکستان میں مسیحی …..! ان کے لئے ، اپنے قلم کی آبرو رکھنے والے جناب ایاز میر نے اپنے کالم میں ”عیسائی کیا کریں ؟”اک لمبی تمہید کے بعد لکھا کہ یہ بھی اب خود اپنے تحفظ کے لئے اٹھیںکہ ریاست انہیں تحفظ دینے میں ناکام ہے، کیا ایسا ہوگا اور ہو سکتا ہے ….. ؟ مگر اس کے لئے دو ہزار سال کی تاریخ کھنگالنا پڑے گی

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی