تاریخ پر رحم کھائیں

Pakistan

Pakistan

ٹیچر نے کلاس میں ایک طالبعلم سے پو چھا وہ کون سی چیز ہے جو ہے تو آپ کی لیکن زیادہ تر اسے دوسرے استعمال کرتے ہیں؟۔۔۔۔طالبعلم سوچ میں گم ہو گیا دماغ بھی کھپایا لیکن بات نہ بنی ۔۔۔شرمندہ شرمندہ انداز سے ٹیچر کی طرف دیکھا گویا ہار مان لی ہو ۔۔۔ٹیچر نے کہا آپ کا نام ایسی چیز ہے جو زیادہ تر دوسرے استعمال کرتے ہیں طالبعلم لاجواب ہو گیا۔ کہتے ہیں نام زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اسی لئے لوگ خوبصورت نام رکھتے ہیں اس کے باوجود آپ نے یہ محاورہ تو اکثر سناہوگا کہ نام میں کیا رکھاہے پھول کو کسی نام بھی پکارو ۔۔وہ تو اپنی خوشبو سے پہچانا جاتاہے لیکن نام ۔۔تونام ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پہچان کی علامت ہے انسانوں کے نام کی بات اورہے شہروں، قصبوں اور علاقوں کے ناموں کی بات اور ان کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور نام رکھنے کی وجہ تسمیہ بھی۔۔۔انگریزوں نے بر ِ صغیرپر غاصبانہ قبضہ کیا تو سب سے پہلے اس نے ہندوستان کو” انڈیا ” کا نام دیکر اس کی پہچان پر حملہ کیا اور بہت سے شہروںکے نام تبدیل کرکے رکھ دئیے یہ بر ِ صغیر کی تہذیب پر حملہ تھایہ دراصل ایک مخصوص سوچ کا آئینہ دارہے ایک منتشر، تعصبانہ اورغاصبانہ زاویہ ٔ فکر کی علامت جس کی کوکھ سے انتہا پسندی نے جنم لیاہے۔۔کئی سال پہلے ہندوستان میں اسی سوچ ،اسی فکر اوراسی خیال کے انتہا پسند ہندوئوں نے تاریخی بابری مسجدکو شہید کرکے وہاں رام مندر بنانے کااعلان کردیاجس نے کئی فتنوں کو ہوا دی اس کی آڑمیں مسلم کشی کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے گئے سینکڑوں مسلمانوںکو شہید اور معذور کر دیا گیا۔

تاریخی بابری مسجدکی تاریخی حیثیت مسخ کرنے اور متنازعہ بنانے کی کوشش تو ناکام ہو گئی اسی طرح دنیا بھر کے یہودی قبلہ ‘ اول بیت المقدس کو شہید کرکے وہاں ہیکل ِ سلیمانی بنانے کی سازش کررہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کا امن کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر کام ہورہاہے اقوام ِ عالم میں جس ملک میں بھی ایسا ہورہاہے دراصل یہ سب کچھ ایک مخصوص ذہن کے لوگ کررہے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں جو ہرکام متشدد انداز سے کرنے کے عادی ہیں یہ لوگ رواداری، برداشت ،تحمل اورپر یقین نہیں رکھتے جس کی بناء پر مذاہب کے درمیان تنائو قائم رہتاہے یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں،افواہوںیا واقعات سے لوگ بھڑک اٹھتے ہیں،مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں یہ رویہ تہذیبوںکا دشمن ہے اور امن کا قاتل ۔۔۔ اس سے مذاہب کے درمیان تصادم کے خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں پاکستان میں بھی کچھ لوگ ڈنڈے کے زورپر ہر چیز کو” اسلامی ”بنانے پر تلے ہوئے ہیں ان کا کہناہے ایک اسلامی ملک میں غیرمسلموںکے ناموں سے شہروں علاقوں کے نام موسوم نہیں ہونے چاہییں یہ غیر اسلامی بات ہے یہ لوگ کسی سیاق و سباق۔۔کسی منظق،فلسفے یالوجک کے بغیر اپنا ایجنڈا ہرکسی پر نافذ کرنے کیلئے پر جوش ہیںاور اس کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔۔۔شہروں،قصبوں اور علاقوںکے نام تبدیل کرنا ۔ ۔۔تاریخ سے ایک سنگین مذاق ہے بلکہ اسے تہذیب پر حملہ بھی قراردیا جا سکتاہے یہ تواپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرنے والی بات ہوئی نا۔۔۔میری ایک شخص سے اس سلسلہ میں بات ہوئی اس کا کہنا تھا اندھا دھند نام تبدیل کرنے کے حامیو ں سے کوئی پوچھے کیا زہر کی بوتل پر تریاق لکھ دینے سے فائدہ ہوگا۔۔۔۔

کیا ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کرکے رسول پورہ رکھا جاسکتاہے؟ ۔۔۔کیانام بدل دینے سے اس شہرکے لوگوںکی سوچیںبدل جائیں گی؟۔۔۔ایک اور شخص کا کہنا تھا کسی شہر کا نام یاکسی چیزکی تاریخی حیثیت تبدیل کرنا اچھی بات ہے توتاریخی بابری مسجدکے معاملہ میں کیوں اتنا شور مچایا جا رہا ہے۔۔۔دراصل کسی بھی معاملہ کا انتہا پسندی کوئی حل نہیں برِ صغیر پاک و بنگلہ ہند کی اپنی ایک تاریخ ہے یہ معاملہ ہر قسم کے تعصب،مذہب اور لسانیت سے بالاتر ہوکر سوچنے کا ہے اس خطے کی تاریخ کوبعینٰہ تاریخ رہنے دیں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کی کوشش خطرناک ہو سکتی ہے جو لوگ ہر قیمت پر پاکستان کے پرانے شہروں یا چیزوں کے ناموں کو ”اسلامی ” بنانا چاہتے ہیں اگر ان کا مطالبہ مان بھی لیا جائے تو ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے۔

Civilization

Civilization

جناب ِ عالی! سر گنگارام ہسپتال، میو ہسپتال، گلاب دیوی ہسپتال کا نام بدل کر آپ کیا نام رکھنا پسند کریں گے؟ مونجوڈارو، ہڑپہ کے نئے نام کیاہونے چاہییں۔ اور وہاں سے دریافت ہونے والی صدیوں پرانی تہذیب کا کیا نام رکھا جائے کیا گندھارا تہذیب کو اسلامی قرار دیا جا سکتاہے یا آرین تہذیب کو ۔ مسلمان بنایا جا سکتاہے۔؟ جناب یہ ہمارے خطے کی تہذیب، ثقافت، تمدن اور روایات کے امین نام ہیں انہی میں ان کا حسن پوشیدہ ہے لاہور، قصور، ایمن آباد، ٹیکسلا سمیت سینکڑوں نام ”غیر مسلم”ہیں آپ کس کس کا نام تبدیل کریں گے؟ اور اس کی بجائے لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ٔثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ نفرتوں کے خاتمہ کیلئے محبت، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔آج کے دور میں دنیا گلوبل ویلج بن کر سمٹ گئی ہے نفرتیں پال کر،دنیا سے کٹ کر یا دوسروں پر اپنے بے بنیاد نظریے ٹھونس کر زندگی نہیں گذاری جا سکتی ہم سب کو قول و فعل کا تضاد اور دہرا معیار ترک کرناہوگا دنیا میں امن ،سکون کا واحد حل یہ ہے کہ ”اپنا عقیدہ مت چھوڑو۔۔۔

دوسروں کا عقیدہ مت چھیڑو” اس اصول کے بغیرسکون مل سکتاہے نہ ترقی کی جا سکتی ہے۔جولوگ کسی سیاق و سباق۔۔کسی منظق،فلسفے یالوجک کے بغیر اپنا ایجنڈا ہرکسی پر نافذ کرنے کیلئے پر جوش ہیںاور اس کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں ان کو اعتدال کی راہ اپنانا ہوگی اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال سکھاتاہے،توازن کا سبق دیتاہے اور میانہ روی کا حکم دیتاہے۔ مخصوص سوچ سے منتشر ،تعصبانہ اورغاصبانہ انداز ِ فکر پروان چڑھتاہے جس کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے ہم اور ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کا متحمل ہرگزنہیں ہو سکتا تہذیبوںکو تاریخ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا زیادہ بہترہے ایک بچے کا نام تبدیل کرنے کیلئے نادرا والے سو کھیکھن کرنے پر مجبور کردیتے ہیں اور آپ ہیں کہ کتنی سادگی سے صدیوں پرانے نام تبدیل کرنے کی بات کررہے ہیں خدا کیلئے تاریخ پر رحم کھائیں۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی