بقائے وطن یا سیاست

Lahore Motorway Rape Case

Lahore Motorway Rape Case

تحریر : شاہ بانو میر

آسمان پھٹا نہ زمین
پاکستان میں کچھ تو اپنوں کی مہربانیاں ہیں
جو جرائم ہر پچھلی حد توڑ کر نئے انداز سے سامنے آ رہے ہیں
باقیماندہ کسر را نے پوری کر دی
اس ملک کے سستے لالچی ذہنوں کو خرید کر
اسی کے خلاف زہر بھر کر پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے
حالیہ واقعہ ایسا ہے
زندگی میں پہلی بار ہے کہ
قائد اعظم کی تاریخ وفات پر لکھنا درکنار
تاریخ ہی ذہن سے محو ہو گئی
ایسا ظلم ایسی قیامت کی گھڑی زندہ قوم پر ٹوٹی
کہ
ملک کے وزیر اعظم بھی سرعام مجرم کو لٹکا کر
سامان عبرت بنانے کا کہہ اٹھے
ملک میں کیسی ہیجانی طغیانی کیفیت بپا ہے
کہ
ادھورے نامکمل منصوبوں کی
سزا عوام
اور
جزا مجرمان پا رہے ہیں
گھات لگا کر کسی نہ کسی شکار کا تعاقب کر کے
بغیر کسی سہولت کی اس طویل شاہراہ پر
پسٹل سے ٹائر کو بھی برسٹ کر کے مسافر کو جان و مال کا نقصان آسانی سے پہنچایا جا سکتا ہے
یہی ایک ماں کے ساتھ بھی ہوا
سارا ملک ساری قوم اس عظیم سانحے پر رنج اور دکھ سے دوچار ہے
ایک راہگیر نے یہ دل خراش واقعہ چشم دید دیکھا
جان کے ڈر سے رکا نہی
بطور پاکستانی امدادی نمبر پر فون ضرور کر کے فرض ادا کر گیا
محض فون کے تین منٹ بد امدادی ٹیم وہاں تھی
یہاں سوال اٹھتا ہے
ایک مرد رات کو فون کرے
وہ معاملہ زیادہ حساس ہے
یا
سڑک کنارے کھڑی بچوں سمیت عورت کی مدد کا کال
زیادہ جلد ایکشن کی متقاضی تھی؟
حادثے کو مکمل ہوئے وقت گزرا تو مدد بھی آ گئی
پولیس کی محکمانہ غفلت نے ایک ہنستے کھیلتے گھرانے کو غم میں ڈبو دیا
تھر تھر کانپتی ماں بظاہر بچوں کیلئے
حوصلے کی ڈھال بنی انکو ڈھارس دے رہی تھی
لیکن
اسکی بہادری کھوکھلی تھی
وہ پڑہی لکھی لڑکی اس ملک میں موجود درندہ صفت مخلوق کا ادراک رکھتی تھی
جو آفت اور بلا کی طرح رات کے اندھیرے میں نمودار ہوتے ہیں
شیطانی چیلے گھات لگائے ممکنہ طور پے ایسی ویران سڑکوں پر شکار کے منتظر رہتے ہیں
آج ہوا کی بیٹی جس کے یہ مددگار بن کر دنیا و آخرت میں اگلے پچھلے گناہ معاف کروا سکتے تھے
لیکن گیدڑوں نے سہمی ہوئی ہرنی شکارکر کے
المناک انجام خود چن لیا
وہ یہاں چھپ کر کسی واردات کا انتظارکیوں کر تے تھے ؟ۤ
ملک کے اداروں کی انتظامی سلو موشن کاروائی کو یہ مجرم اچھی طرح جانتے تھے
ان کے پیچھے وڈیرے سیاسی چوہدری انکی غیرت کا خون سرد کر دیتے ہیں
اس رات بھی دو بھیڑیے نما انسان
اپنی سرعام پھانسی کی تمام جزویات کو مکمل کر گئے
سوچیں
وقت لمحہ لمحہ خوف عورت بچے
دوسری جانب کس کی ذمہ داری کی بحث
یہ میرا پیارا وطن ہے
یہاں لمحہ لمحہ اندھیرے میں خوف سے جیتے مرتے انسان
انکی اس بحث کا شکار ہو کر
مالی اور جانی لحاظ سے لُٹ پُٹ جاتے ہیں
کہ
تمہارے تھانے کی حدود ہیں ہماری نہیں
جتنی دیر میں حدود کا تعین ہوتا ہے
واردات کرنے والےواردات کے بعد نشانات مٹا کر خود بھی غائب ہو جاتے ہیں
پیچھے رہ جاتے ہیں لٹنے والے انکی آہ و بکا
اور
رشوت کی گڈیاں اور تھانہ کچہری کے چکر
اور
ساتھ ہی ساتھ سوال
کہ
اس وقت کیوں سفر کیا؟
اپنی ہر کوتاہی غفلت پر شرمندگی کی بجائے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
یہی یہاں بھی ہوا
نامکمل سڑک پٹرول پمپ نہیں کوئی ہیلپ فون بوتھ نہیں
کوئی ہنگامی امدادی پٹرولنگ نہیں
تنہا عورت ساتھ معصوم بچے رات کا پچھلا پہر گاڑی رکی ہوئی
نجانے اس نے کس طرح امدادی نمبر
کانپتی انگلیوں سے سنسان ویران ہولناک سیاہ رات میں ڈائل کیا ہوگا ؟
ایک تنہا عورت مدد کی فریادکر رہی ہے ؟
انسانیت کیا کہتی ہے ؟
کیا یہ وقت تھانے کی حدود کی پیمائش طے کرنے کا تھا؟
یا
صلاح الدین ایوبی یا محمد بن قاسم بن کر
چشم زدن میں دیگر ہنگامی اداروں کو کال کر کے فوری طور پے
اسکے حوصلے اور بچوں کی تسلی کیلیۓ وہاں پہنچنا تھا
ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت گزر جاتا ہے
مجرم پہنچ جاتے ہیں
ظلم کی داستان رقم ہوتی ہے کہرام مچ جاتا ہے
محافظ ابھی تک حدود کے تعین کی بحث میں مصروف تھے
یہ حکومت نہ جان سکی
لیکن
یہ وارداتیے جان گئے
انکو ہر رات شکار مل سکتا ہے
وہ کسی عورت کو دیکھ کر نہیں آئے تھے
گھات لگائے گاڑی خراب دیکھ کر آئے
اسی سڑک پر بقول آج پکڑے جانے والے مجرم کے
وہ پہلے بھی واردات کر چکے ہیں
سوچیں
بغیر کسی سہولت کے صرف سڑک بنائی گئی ہے
عوام کی جان و مال اور کاروبار کے فروغ کیلئے
یا پھر جان و مال کو داؤ پر لگانے کیلیے
ٹول ٹیکس لگا دیا گیا
لق و دق سڑک پر شیطانوں کو اس بد نصیب عورت کی کار نظر آ گئی
اپنے ملکی اداروں اپنی پولیس پر ان مجرموں کو اتنا مکمل اعتماد تھا
کہ
ہر مکروہ کام اطمینان سے کر کے رقم بھی برابر تقسیم کر کے یہ دونوں
وحشی درندے اپنے اپنے راستے ہو لئے
اس واقعہ پر زخموں پر نمک چھڑکا جب
متنازعہ پولیس افسر نے انتہائی گھٹیا بیان پر
عدالت کے حضور معافی چاہی
تو کوئی بھی باشعور اس کے عدالت سے نکلتے ہی
اسکے غلیظ جابرانہ فاتح چہرے کی مسکراہٹ کو دیکھ کر جان سکتا تھا
کہ
اسکو واقعی شرمندگی ہے یا صرف لفظوں کے کھیل سے عدالت عالیہ کو
بہلایا گیا
کیسے اس ملک میں امن کی بات ہو سکتی ہے
جس ملک کی ماں بہن بیٹی غیر محفوظ ہے
اسی ملک میں چور ڈکیت ٹھک قاتل سب کے سب جانتے ہیں
کہ
ایسی خاموش ویراں قاتل سڑکیں
دراصل انکے شکار کرنےکے لئے ہیں
اس حادثے پر
آج سوال اسی سے بنتا ہے
جس کی حکومت ہے
اہل وطن
خُدارا
سیاست سے ہٹ کر سوچیں
ہمیں حق آواز اٹھانی ہے
خواہ
وہ کوئی بھی رہنما ہے
للہ
اپنی سوئی ہوئی سوچ کو زندہ کریں
بات اگر حق کی ہے
تو سابقے لاحقے لگانے کی بجائے
عام پاکستانی بنیں
آواز اٹھائیں
اس مردہ نظام کو مردار کھانے والوں سے نجات دلوائیں
ذہنوں میں طغیانی بپھر کر طوفان بنائیں
ملک کشکول کے سہارے دنیا بھر میں
خودی اقبال کا خواب کھو رہا ہے
آؤ مل کر
سیاست ست بالاتر ہو کر
کسی بھی ایسے حادثے کی صورت اکٹھے ہو کر
ان گھناؤنے انسان نما دشمن
رہزن اور لٹیروں کو نشان عبرت بنائیں
پولیس یا کسی اور ادارے کی کوتاہی ہے
تو
محض سیاسی لفاظی سے دلوں کو زخمی نہ کریں
بلکہ
حکومت کو راستہ دکھائیں
سزا کے تعین میں مددگار بنیں
ہم وطنو
یہ ہوگا کب؟
جب میں آپ اپنے اپنے سیاسی محدود دائرے سے نکل کر
ملک کی وسیع چھتری کے نیچے ایک ہو کر
بقائے وطن کیلئے
تحفظ نسواں کیلئے
یک زبان اور یک آواز ہوں گے
یہ کریں گے تو ہی نسلوں کی سلامتی ممکن ہے
سوچیں
مجھے کون پیارا ہے؟
سیاست
یا
بقائے وطن؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر