بے گھر پرندے ہوتے ہیں اشجار کٹنے سے

Clean and Green Pakistan

Clean and Green Pakistan

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر

میری دھرتی کی فضائوں سے پرندوں کی چہچہاہٹ کیوں ختم ہوتی جارہی ہے ؟یہ بات ایک عرصے سے میرے ذہن میں کلبلا رہی تھی کہ اچانک ایک خبر مجھ پر بجلی بن کر گری کے مختلف تعلیمی اداروں سے بھی اب سایہ دار درخت کاٹے جارہے ہیں ایک طرف ہم کلین اینڈ گرین پاکستان کے دعویدار ہیں اور دوسری طرف ہم بہت سے تناور درختوں کا قتل عام کئے جا رہے ہیں پھر کیا فائدہ ایسے فوٹو سیشنز کا کہ فلاں جگہ کوئی راہبر قوم پودا لگا رہا ہے فلاں جگہ پہ کوئی سی ای او پودا لگا رہا ہے فلاں مقام پر کوئی ہیڈماسٹر پودا لگا رہا ہے یہ پودے جو ابھی ابھی لگائے جارہے ہیں کتنے عرصے میں فضا کو کلین کرنے کے قابل ہوں گے اور جو اشجار گھنے سائے کے حامل تھے انہیں ہم بے دریغ قتل کئے جارہے ہیں کیا ہم اس طرح بنائیں گے کلین اینڈ گرین پاکستان ؟بلکہ ہم تو فضائوں کو آلودہ کرنے کی ٹھان کر بیٹھے ہیں۔

یہ نئے پودے سایہ دار بنتے بنتے ایک مدت لگا دیں گے مگر جو سایہ دار تھے ان کے سر قلم کرتے چلے جارہے کیا یہ اچھائی ہے یا برائی اس طرح ہم فضا کو صاف کر رہے ہیں یا آلودگی کے عفریت کی راہ ہموار کر رہے ہیں ؟اتنی کثیر تعداد میں اشجار کے قتل عام سے میرے ہوائوں اور فضائوں کے ساتھ ساتھ میرے ماحول پہ جو اثرات پڑے ہیں آیئے ذرا ایک جائزہ لیں ان نقصانات کا سب سے پہلا نقصان جو ةمیں آئے روز دیکھنے کو ملتا ہے وہ زلزلوں کا آنا کیونکہ یہ درخت نا صرف زمین کا زیور ہیں بلکہ یہ اپنے وجود کی وجہ سے زمیں کو تھامے ہوئے بھی ہیں جتنے درخت زیادہ ہوں گے اسقدر ہی زلزلے کم آئیں گے پھر ہمیں زندگی جینے کے لیئے آکسیجن سلیڈر نہیں خریدنے پڑیں گے وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی مقدار میں یہ درخت آکسیجن کی فراہمی کا سبب بھی ہیں نئے لگنے والے پودے نہیں بلکہ جنہیں ہم کاٹتے چلے جارہے ہیں ان درختوں کی بات کر رہا ہوں ۔اب آتے ہیں ہم ایک اور بہٹ بڑے ناقابل تلافی نقصان کی طر ف کہ ان اشجار کے کٹنے سے کروڑوں پرندے بے گھر ہوکر مر چکے ہیں اور ابھی بہت سارے مر رہے ہیں۔

چونکہ خالق ارض و سماء نے کوئی بھی ذی روح بغیر کسی حکمت کے خلق نہیں کیا اسی لیئے پرندوں کا وجود بھی انسانی زندگیوں اور ماحول و معاشیات پر گہرا اثر رکھتا ہے سب سے پہلے سب سے چھوٹے پرندے چڑیا کو ہی لے لیںیہ وہ پرندہ ہے جو ماحول دشمن حشرات الارض کو نمو پانے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے جس سے زرعی اعتبار سے انسان فائدے میں رہتا ہے آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی حال ہی میں میری دھرتی پر ٹڈی دل کی ایک فوج کثیر نے لشکر کشی کی جس سے زرعی شعبہ میں لگ بھگ 130 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان میرے ملک کو اٹھانا پڑا اگر درخت کاٹ کاٹ کر ہم لوگ چڑیوں کی نسل کشی نہ کرتے تو کبھی بھی معیشت کو اتنا بڑا دھچکا نہ لگتا چڑیا وہ پرندہ ہے جو ٹڈی دل کے لاروے کو کھا جاتا ہے جس سے اسکی افزائش اس بڑی تعداد میں نہیں ہونے پاتی ٹڈی دل کا اتنا بڑا لشکر کبھی نمو نہ پاتا اگر ہم نے چڑیوں کو بے گھر کر کر کے نہ مارا ہوتا ایک عرصہ ہی ہوگیا ہے کہ میری سماعتوں میں کوئل کی کو کو نے رس گھولا ہو اگر اسی رفتار سے ہم درخت کاٹتے چلے گئے تو ان پرندوں کی نسلیں ختم ہو جائیں گی۔

ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا بتائیں گے کہ کوئل کیسی ہوتی تھی ؟طائر امن فاختہ کو بھی دیکھے ہو کافی عرصہ بیت رہا ہے کیونکہ اس معصوم پرندے کو تو ہم امن کانفرنسیں مناتے ہوئے بھون بھون کر ضیافتوں کی نذر کر چکے یعنی امن کے پیکر اس پرندے کو ہم بھون نہیں رہے بلکہ امن کو کڑاہی میں تل کر ہڑپ کر گئے ہیں ثابت ہوا کہ نہ ہم امن دوست ہیں نہ ہی ماحول دوست ۔قارئین کرام یہ واقعہ ہے گزشتہ اتوار کا جب شیخوپورہ کے نواح میں واقع تاریخی قصبہ جنڈیالہ شیر خان میں گورنمنٹ کے ایک سکول میں گورنمنٹ کے ہیڈ ماسٹر نے سکول سے بڑی تعداد میں درخت کٹوا کر بیچ ڈالے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ہیڈ ماسٹر کو کس کی اشیر باد حاصل تھی اس گورنمنٹ کے افسران کی کہ جن کا دعویٰ ہے کہ کلین اینڈ گرین پاکستان بنانا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے پودے لگا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بڑے برے درخت کاٹتے چلے جا رہے ہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ میرے سمجھنے میں غلطی لگی ہو کلین اینڈ گرین کو میں صاف ستھرا اور سرسبز سمجھ بیٹھا جبکہ یہاں مطلب ہو کہ کلین یعنی صاف کر دو گرین کو تبھی تو گرین کو صاف کر رہے ہیں موصوف ہید ماسٹر جنڈیالہ شیر خان ۔ اگر اسی رفتار سے ہم تناور اشجار کا قتل عام کرتے رہے تو کروڑوں پرندے بے گھری میں موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور پرندوں کی نسلیں اگر ختم ہوگئیں تو بہت سارے ماحول دشمن وائرس نمو پا کر ہزاروں بیماریوں کو دنیا میں عام کر دیں گے کروڑ ہا حشرات الارض لشکروں کی صورت میں افزائش پائیں گے جن سے نا صرف معاشی نقصان ہوگا بلکہ ماحول کی تباہی کی صورت میں انسان کو بھی بہت سی وبائوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اشجار کے کاٹنے سے پرندوں کی نسلیں دنیا سے ختم ہو جائیں گی اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پرندے دیکھانے کی بجائے صرف ان کے قصے سنا سکیں گے ۔جہاں سائنسی ترقی نے انسان کو بہت کچھ دیا وہیں اتنا ہی فطرت سے دور کر دیا اور بہت ساری وبائوں اور امراض نے انسان کو جکڑ لیا ۔اس ضمن میں ایک اور بات ذہن میں آگئی وہ یہ کہ ہم اپنے بچپن میں ایک پرندہ اکثر دیکھا کرتے تھے جسے گدھ کہا جاتا تھا کئی سال ہوگئے لگتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے گدھوں کی نسل ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے۔

کسی نے کبھی دیکھی ہے ان دنوں کبھی گدھ نہیں نا ؟اس کی سب سے بڑی وجہ آگے چل کر بیان کروں گا پہلے یہ عرض کرتا چلوں جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں خالق کائنات نے کوئی بھی چیز بغیر حکمت کے نہیں بنائی بالکل اسی طرح گدھ کی صورت میں اللہ پاک نے بہترین سینیٹری ورکر پیدا کیا تھا کبھی کوئی گھوڑا ،گدھا ،گائے بھینس بکری وغیرہ مر جاتے تھے تو ہم ان کی کھال اتار کر کسی ویران جگہ پر پھینک دیتے تھے پھر فضا سے گدھوں کا غول آتا اور اس مردار گوشت کو کھا کر ہماری فضا کو تعفن سے آلودہ ہونے سے محفوظ کر دیتا اس طرح یہ پرندہ اپنا پیٹ بھرتا اور ہمارے ماحول کو صاف کرنے کی ڈیوٹی سر انجام دیتا پھر سائنس نے ترقی کی اور ہارمونز کے انجیکشن مارکیٹ میں آگئے جنہیں ہم نے اپنی گائے بھینسوں کو لگا کر دودھ دھونا شروع کر دیا پھر کیا ہواکہ ہارمونز کی زیادتی سے ہمارے دودھ دینے والے جانوروں کی عمریں مختصر ہوگئیں جب وہ جانور مرتا ہم اسے اسی طرح حسب سابق ویرانے میں پھینکنے لگے قدرتی عملہ صفائی یعنی گدھوں نے جب ان مرے ہوئے جونوروں کا گوشت کھیا تو وہ خود زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی اور بالآخر دنیا سے گدھ کی نسل ختم ہوگئی اور ہم نے بھی کئی اور راہیں نکال لی جو کام گدھ کرتی تھی ہمیں کرنا پڑا اب کبھی دیکھا کسی نے کہ کسی مرے جانور کا ڈھانچہ آپکو کسی شہر کے آس پاس نظر آیا ہو اگر نہیں تو کہاں جاتا ہے وہ مردار گوشت جی جناب تو وہ مردار گوشت کسی نہ کسی طرح شہروں کے ہوٹلوں پر چلا جاتا ہے اور انسان اب گدھ کی ڈیوٹی کرتے ہوئے وہ مردار کھائے چلا جارہا ہے اور بہت سی موزی امراض کا شکار ہورہا ہے اور اگر کہیں وہ مردار گوشت ہوٹلوں تک نہیں پہنچتا تو پھر ہڈیوں سمیت پھر سے ری پراسس ہوکر جانوروں کی خوراک بنا دیا جاتا ہے یہ تو تھی سائنس کی ترقی اور ماحول دوست پرندوں کی روداد اب واپس آتے ہیں اپنی اصل گفتگو کی طرف کہ خدارا بے دریغ درخت کاٹ کر دنیا سے پرندوں کی نسلوں کو ختم نہ کرو ورنہ یہ پرندے صرف قصے کہانیوں میں ملیں گے۔

DR M H BABAR

DR M H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile:03344954919
Mail:mhbabar4@gmail.com