امید بہار رکھ

Ertugrul

Ertugrul

تحریر : شاہ بانو میر

کسی سابقہ حاکم سے کوئی گِلہ نہیں ہے
کسی موجودہ حکمران سے بھی شکوہ نہیں ہے
قوم ہی بے شعور ہے
موت سے آگاہ ہی نہیں
کل جہاز نے منزل سے صرف ایک منٹ پہلے تباہ ہو کر بتا دیا
ہم بھی تم جیسے تھے
جنہیں
عید نصیب نہیں ہوئی
موت کی یلغار کرونا کی صورت ملک کے ہر حصے میں ہے
مگر
بازاروں میں میری سادہ لوح بہنوں کی بڑی تعداد ہے
سمجھ سے بالا تر ہے
یہ قوم نئے کپڑے پہن کر وینٹیلیٹر پرجانا چاہتی ہے

آج کی عورت
اصل سےبہت دور ہے
دکھاوے کی دنیا میں کھو گئی ہے
وہ اسے کامیابی سمجھے بیٹھی مطمئین ہے
کل کا اسلامی شعور کیا آج کی عورت میں ہے؟
کیا آج کی ماں کل کی ماں کی طرح
اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرکے
اپنی نسل میں
اسلام کیلئے عزم طاقت پیدا کر رہی ہے؟
ہر طرف تزکرہ ہے ذکر ہے
جس میں اسلام کی بالا دستی اور فتوحات کا طویل سلسلہ ہے
ارطغرل
کمال کے ڈائیلاگزجن کو لکھنے والا لکھ ہی نہ سکتا
اگر
قرآن اور حدیث کا حقیقی علم اس نے نہ لیا ہوتا
اداکاروں کا کمال کیا حق ادا کیا ہے
چہرے کے اتار چڑہاؤ حقیقی غیور ادائیگی
اس ڈرامے کی بڑہتی ہوئی مقبولیت نے جہاں اسلام دشمنوں کی نیندیں حرام کیں
وہاں اس کی پاکستان میں شہرت نے ثابت کیا
پاکستانی عوام دو ٹکے کی کہانیاں نہیں
اصل سنجیدہ موضوعات کو سن کر شعور لینا چاہتے ہیں
کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے
اس ڈرامے نے کمال کر دکھایا
جبکہ
ناقدین کا کہنا ہے
ارطغرل ڈرامہ دو ٹکے کے بکاؤ اداکاروں کو
اتنے شاندار لوگوں کے کردار دے کر ان کی توہین کی گئی ہے
حیرت ہوئی پڑھ کر
کون ہیں یہ لوگ
جو کسی اچھی کوشش کو برداشت نہیں کرتے صرف اس لئے
کہ
وہ اسلام کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے
آج معاشرہ زمین بوس اسی لئے ہو رہا ہے
اقبال فیض غالب فراز سب غائب
کیونکہ
پیسہ آگیا جہلاء کے پاس
معاشرے پے اتھارٹی انکی جو پہنچ ہی نہیں سکتے
اقبال
فیض
غالب
فراز
تک
لہذا
انکو سمجھ آتی ہیں میراثیوں کی جگت بازیاں
یہی وجہ ہے
آج
قوم بدنصیبی کی اُس انتہاء پر ہے
کسی شاعر دانشور کو اس وقت تک ٹی وی پر پروگرام نہیں ملتا
جب تک ان دانشوروں کے ساتھ
کچھ میراثی فنکار مزاح کیلئے شامل نہ ہوں
مالکان نے دولت کا استعمال اب پیسہ اور بٹورنے کیلئے اس شعبے کو چنا
تو
ذہنی حالت اور معیار ظاہر ہے انہی کے مطابق ہونا چاہیے تھا
جاہل ٹولے نےعلم کا
عوام سے کوئی تعلق نہیں رہنے دیا
ہم نہ دین کے ہیں نہ دنیا کے بھٹکے پھر رہے ہیں
راستہ صرف ایک تھا
جب وہ چھوڑا تو
دنیا میں بھی نام مقام شعبہ ایک نہ رہا

ایک مسلمان کا اصل کیا ہے اور کیا صفات اسکی میراث ہیں
اس میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے شعور پر
ضرب لگانے کی ایک کوشش کی جا رہی ہے
لوہے کے لباس سروں پر خود ہمہ وقت دشمن سے مقابلہ کرنے
اور
اسلام کو مزید پھیلانے کیلیۓ تیار
ارتغرل ماضی بتا رہا ہے
ہمارےدل مان رہے ہیں
دین ایسا ہی تھا
چھا جانے والا
مشکور ہونا ہوگا
اس ڈرامے کا
اس ڈرامے کا کمال اس کی ماضی سے حقیقی مشابہت ہے
ماحول وہی سادہ باحیا غیور مقدس ہے
عورت سادگی کا مرقع باحجاب لباس میں بھی ایسی زبردست پزیرائی
نے اہل علم کو بتا دیا
عوام بامقصد چیزیں دیکھنا سمجھنا اور عمل کرنا چاہتے ہیں
یعنی
عوام کے ضمیر زندہ ہیں
صرف قلمکار کے افکار مردہ ہوئے
آج جب ایک جوان دیکھتا ہے
کل کا مرد مومن
جس کی کمر سے تیغ میں رکھی وزنی تلوار
شائد
اس بھاری بھرکم لوہے کی تلوار کو پکڑتے ہوئے
کی بورڈ پر چلتی انگلیوں والے ہاتھ مُڑ ہی نہ جائیں
وزنی تلوار خنجر اور گھوڑوں پر شہسواروں کے لشکر
کل تک انکی اصل میراث تھی
پھر
گلوبل ویلج آگیا
اور
یہ سب گیمز میں ایڈونچرز سمجھ کر کھیلنے لگے
خوش ہوتے ہوئے اصل کو بھول گئے
ارطغرل کیسے کسی کھلونے کی طرح تلو ار نکال کر
دشمن پر بجلی کی طرح گراتا چلا جاتا ہے
آج کا نوجوان گم کر سوچتا ہے
کہ
میں نے شناخت گم کر دی
کیا
اپنے ہتھیار بھول گیا
جس نے کند کر دیے ہاتھ
اثاثہ مومن کا
تیر کمان اور گھڑ سواری تھی
اس ڈرامہ میں ہروہ چیز ہے جو کل ماضی تھا
آج پھر سے تعبیر بنا کر دکھایا جا رہا ہے
اس ڈرامے نے بتایا
جسمانی کھیل تماشے ماضی کے مومنوں کے کیاتھے
جن سے وہ غازی ارتغرل بنے
صلاح الدین ایوبی بنے
آج عمران خان نے شوگر مافیا کا نقاب اتار کر
قوم کو ایک بات سمجھا دی
کہ
کسی دولتمند سے متاثر نہیں ہونا
کیونکہ
اصل میں وہ سب پیسہ ہمارا ہی ہے
جو دو نمبری سے حاصل کیا گیا ہے
رزق حلال اتنا وافر نہیں ہوتا
یہ شعور دیا ساتھ ہی ارطغرل شروع کروا دیا
جسے کتاب سے نہیں سمجھ آئی وہ
یہ بات ڈرامہ کی زبان سے سمجھ کر شعور حاصل کرے
اور
عمران خان یہاں بھی کامیاب ہوگیا
یوں لگ رہا ہے
کہ
ہم اپنے بڑوں کو کامیاب اسلام کے دور میں دیکھ رہے ہیں
کسی صورت کہیں غیریت اجنبیت اور بیگانگی نہیں لگتی
کیونکہ
بات اسلام کی ہو رہی ہے
جو میرا اور ترکی کا ایک ہے
پھر
ہم برادرانہ رشتے میں پروئے ہوئے ہیں
ڈرامہ ہمارا ہی ہے
ہمیں گمشدہ ماضی سے ملا رہا ہے
کیسے سُن نہ ہوں پاکستانی دیکھ کر
کیسےگھوڑے
اللہ اکبر
کے نعرے پر ہنہناتے ہوئے
ٹانگوں کوبلند کر کے گواہی دیتے ہیں
ایک سین بہت متاثر کن لگا
کہ
منگولی طاقت کے نشے میں چور
بد تمیزی سے قبیلے کے سردار کے خیمے میں داخل ہوتے ہیں
حریص نگاہوں سے خاتون خانہ سے اپنی خاطر داری کا مطالبہ کرتے ہیں ٌ
ارطغرل کی تلوار اٹھتی ہے منگولی کا ہاتھ کٹتا ہے
اور
منگول بھوکے جاتے ہوئے ساتھی کا کٹا ہاتھ لے جاتے ہیں
غیرت کا ایسا مظاہرہ ہے
جو ہم کھو چکے ہیں
آج ہم شعور ست درد سے موت سے عاری بے شعور ہو گئے
ملک میں کرونا پھیلے
طیارہ گرے
بلوچستان میں ہمارے فوجی مارے جائیں
ملک کو بھارت سے دھمکیاں ملیں
مگر
ہمیں لمحہ بھر نہیں سوچنا
کہ
ہم عید پر سادگی اپنا لیں
گہما گہمی بازاروں کی بتا رہی ہے
کہ
ارطغرل جیسے اور ڈراموں کی بہت ضرورت ہے ابھی
جو ہمیں سمجھائے گی
کہ
قومیں نت نئے ملبوسات سے شاندار نہیں بنتیں
ان کی غیرت ان کی سادگی اور انکی دلیری اپنی عورتوں کی حفاظت
بچوں کو بچپن سے ارطغرل بنانے کی تربیت
شاندار قوم کا ٹائیٹل دیتی ہے
زندگی زندہ ہوئی
جب قرآن زندگی میں آیا
تلاش تھی
ان کرداروں کی جو صحابہ کرام کی قربانیوں جیسے ہوں
جن کے فقر فاقے ایمان کے رزق سے پیٹ بھرتے تھے
وہ بھوکے پیٹ دشمن پر غضب کی طرح گرتے تھے
انکی چیتھڑا نما چادریں دیکھ کر
انکی شجاعت کا اندازہ کرنا مشکل تھا
ان کرداروں کی متلاشی تھی
جو مائیں
صلاح الدین ایوبی پیدا کرتی ہیں
پھر
ان کی تربیت بیت القدس آزاد کروانے کیلیے کرتی ہیں
ڈھونڈتی تھیں نگاہیں
وہ کشتیاں جلا کر
شاندار حکومت قائم کرنے والا
طارق بن زیاد
خالد بن ولید
محمد بن قاسم
صلاح الدین ایوبی
سب کے سب کہیں کھو گئے
آج ہم خواتین پر گھروں کے اندر رہ کر ذمہ داری بڑھ گئی
ملک کے نازک حالات پر
عید کی شاپنگ نہیں
خواتین کو اپنے بچوں کو سادگی کا شعور دینا ہوگا
کیونکہ
ظاہری دکھاوا قوموں کو کھوکھلا کر دیتا ہے
جبکہ
پاکستان کو آج ضرورت ہے
سادہ زندگی گزار کر تربیت کی جائے
ارطغرل جیسے طاقتور سپوت بقائے اسلام کیلئے
اور
دفاع پاکستان کیلئے
احیاۓ دین کے لئے گھروں میں بیٹوں کو بچپن سے تیار کریں
ارطغرل نے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک کو
پیغام دے دیا ہے
کہ
اب 2023 قریب ہے
زنجیریں کٹنے والی ہیں
احیائے اسلام کا دور آنے والا ہے
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر