انسانی حقوق کی پامالی

Politics

Politics

تحریر: محمد آزاد
مشاہدے کی بات ہے کہ سابقہ حکومت نے پانچ سال کا عرصہ اس وقت کی اپوزیشن سے مل کر پورا کیا یعنی سابق صدر کی مفاہمتی پالیسی نے سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کر دیا یعنی کھائو پیو اور موج اڑائو، اسی موج مستی میں سابقہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی عوام کو کیا ملا اور کیا ملنا چاہئے تھا اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر اپنے سیاسی نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اسے ملکی مفاد کا نام دے کر عوام کا مذاق اڑایا جاتا ہے وہی عوام جو سیاست دانوں کو منتخب کر کے اقتدار کے سنگھاسن پہ بیٹھاتے ہیں۔

انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے بعد یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے عوام اپنے حقوق کے لئے دربدر انصاف کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن انصاف ان سے کوسوں دور ہوتا ہے راقم الحروف بھی گزشتہ دنوں اپنے حقیقی حق لینے کے لئے کوشاں ہوا لیکن سوائے وقت کے ضیا اور ناانصافی کے کچھ نہیں ملا خاکسار نے اپنی زندگی کی چھبیس بہاریں پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی کے نام کر چکا ہے اور زندگی کی یہ چھبیس بہاریں جوانی کی تھیں ماہ و سال گزرنے کے بعد اب جوانی بڑھاپے میں ڈھل چکی ہے کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے۔

انسان ایک مسافر کی طرح اس دنیا میں آتا ہے اور اپنا سفر مکمل کرنے کے بعد خالق حقیقی کی طرف رجوع کر لیتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کے کئے کچھ سہولتیں دے رکھی ہیں لیکن ان سہولتوں کو لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے خاکسار اپنی زندگی کے باسٹھ سال مکمل کرنے کے بعد اپنا ای او بی آئی کارڈ لیکر ای او بی آئی آفس وہاڑی پہنچا متعلقہ عملہ کے اسسٹنٹ سے اپنا مقصد بیان کیا تو انہوں نے دلاسہ دیا کہ آپ اولڈ ایج بینیفٹ کے لئے اپلائی کر سکتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

ان کی بات سن کو دل ناداں کو سکون اور اطمینان ملا کہ اپنا حق ملے گا اور خوب گزرے گی آفس کے مطلوبہ طریقہ کار اور اصول و ضوابط کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی دستاویزات جمع کرا دی گئیں پانچ ماہ بعد دفتر ہذا سے رابطہ کیا گیا تو نئی بات سنا دی گئی کہ آپ کا کیس ای او بی آئی ریجنل آفس ملتان بھیج دیاہے وہ کراچی پی ایس او آفس ضروری جانچ پڑتال کے بعد دوبارہ ملتان آفس آئے گا اور پنشن بک جاری کر دی جائے گی اور ساتھ ہی چھ ماہ کے واجبات بھی مل جائیں گے ان کی بات سے دل کو حوصلہ ہوا اور منزل قریب آتی محسوس ہوئی۔

پندرہ اکتوبر2014ء کو دوبارہ رابط کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے حکم پہ اسسٹنٹ وقار گوندل ٹرمینیٹ ہوچکے ہیں اور وہ ہمارا ریکارڈ بھی آفس کو نہیں دے کر گئے وہی دل ناداں جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا نئی صورت حال جو کہ قطعی طور پہ میرے لئے خوشی کا سماں مہیا نہیں کر رہی تھی امید کو ناامید میں ڈھلتے دیکھ کر حوصلہ کر کے متعلقہ رجسٹرخود ہی تگ ودو سے حاصل کیا اور اپنی خوشیاں ڈھونڈنے چل پڑا تھوڑی سی ورق گردانی کے بعد میرا کیس مل گیاجو ڈائری نمبر 18مورخہ16 جنوری2013ء کو ریجنل آفس ملتان گیا اور ڈائری نمبر 245مورخہ28فروری2013ء کو بطور یادداشت بھی بھیجا گیا دونوں حوالہ جات کے ساتھ ریجنل آفس ملتان کے ڈپٹی ڈائریکٹرسے سارے معاملات پہ تفصیلی گفتگو کی گئی۔

انہوں نے کیس چیک کیا تو ہمارے اوسان ہی خطا ہو گئے کیونکہ وہاں خاکسار کے کیس کا سرے سے ریکارڈ ہی نہیں تھا سارے الجھے ہوئے معاملے سلجھانے کا طریقہ پوچھا گیا تو نئے سرے سے کیس کو سب میٹ کرنے کا کہا گیا لیکن یہاں پہ ” آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا” والا معاملہ میرا منہ چڑا رہاتھا کیونکہ مجھے یہ کہہ کر زمین پائوں سے نکال دی گئی کہ کیس آج مورخہ13نومبر2014ء سے درج کیا جائے گا اور واجبات کی ادائیگی پچھلے چھ مہینے سے ہوگی جبکہ حق کی بات یہ ہے کہ واجبات کی ادائیگی35ماہ کی بنتی ہے۔

یہ کیسا انصاف ہے غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے راقم الحروف کے کیس میں غلطی تو محکہ کے عملہ کی ہے لیکن سزا سائل کو دی جا رہی ہے سرکاری محکموں میں بڑے عہدوں پہ براجمان افسران جو لاکھوں کی نہیں اربوں کی کرپشن کرتے ہیں ان سے کون حساب لے گا ہم جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ جو بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں ان سے ہونے والی زیادتیاں کا حساب کون لے گا اعلی حکام سن لیں غریب کی آہ عرش بریں تک پہ پہنچ جاتی ہے جب وہاں سے انصاف ہوتا ہے تو پھر بڑے بڑوں کر سر جھک جاتے ہیں بچیں اس وقت سے جب روز محشر میں مظلوم کا ہاتھ ظالم کے گریبان میں گا اعلی حکام سے اپیل ہے کہ انسانی حقو ق کی پامالی کے مرتکب افراد کو کیفرکردار تک پہنچا کر حق دار کو اس کا حق دلایا جائے۔

Mohammad Azad

Mohammad Azad

تحریر: محمد آزاد