یونانیوں کا دیوتا اپالو اور عمران خان

Imran Khan

Imran Khan

سیاست میں آنے سے پہلے عمران خان کی شخصیت کی مقناطیسی چمک پاکستانیوں ہی کی نہیں پوری دنیا کے لوگو ں کی آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہی تھی، اونچا لمبا قد، گور ا چٹا رنگ، چیتے کی طرح تنا ہوا پھرتیلا جسم،خدوخال انتہائی جازب و پرکشش اور اس پر ستم یہ کہ غرور کی حد تک سنجیدہ ا۔ مشرق تو دور کی بات مغرب کی گوریاں اس کی بے توجہی اور بے رخی سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کی کوشش میں ہسپتالوں کی غلام گردشوں تک جا پہنچی تھیں ۔ نوے کی دہائی میں عمران خان دولت و شہرت کے اعتبار سے دنیا بھر کا ہیرو بن چکا تھا۔ کامیابیاں اس کے قدم چوم رہی تھیں لیکن وہ اپنی زات میں مست شہرت کی چکا چوند سے چھپتا پھر رہا تھا۔

ما ڈلنگ کی بڑی بڑی آفروں کو اس نے ٹھکرا دیں ، اسکا ایک ہی عشق تھا جو جنون بن کواس کی رگوں میں دوڑ رہا تھا ،اور وہ عشق تھا کرکٹ، اسی جنون کو تعبیر دے کر اس نے ورلڈ کپ کے ناممکن خواب کوشرمندہ تعبیر کر کے پاکستان کے قدموں میں لا کر ڈال دیا۔ اتنی بڑی کامیابیوں کے باوجود بھی وہ ا کھڑا اکھڑا اور لاپر واہ ہی رہا ۔ وہ جدھر سے گزرتا م لڑکے رشک کرتے اور لڑکیا ں دل تھام لیتیں مگر وہ یونانیوں کے خو بصورت دیوتا اپالو کی مانند ہوا کے جھونکے کی طرح اڑتا پھرتا ۔ کر کٹ کی عظیم بلندیوں کے اس دور میں ایک شے اس کی شخصیت اور ماحول سے البتہ میل نہیں کھاتی تھی اور وہ شے تھی اس کے گلے میں لٹکتا ہو لاکٹ جس پر اللہ لکھا ہو اتھا۔ اور اسے وہ کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتا تھا۔

کلمہ چوک سے ایک کلو میٹر آگے بائیں جانب قزافی سٹیڈیم کے کلوسیو نما کلچرل ہال میں میوزیکل شو چل رہا تھا ،جیوپٹرز اپنے فن کا مطاہرہ کر کے سٹیج کے پیچھے غائب ہو چکا تھا ،شوختم ہونے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔لیکن تماشیوں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے، وہ ٹکٹ خرید کر شو میں آئے تھے ، اس لئے ہر سنگر پر سخت ہوٹنگ ہو رہی تھی ، لوگ پہلے بدزبانی پر آئے پھر اٹھ کر آؤٹ ڈور گیٹ کی جانب جانے لگے، اس وقت کسی کرشمے کی ضرورت تھی ، شو کے میزبان معین اختر تھے ،معین اختر موجود ہو اور لوگ اپنی سیٹوں سے کسمسا جائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ، پھر وہ کرشمہ بھی ہو گیا ، عورتیں بچوں کو اور مرد اپنی اشیا سمیٹ کر جا ہی رہے تھے کہ ایسا لگا جیسے ان کو پاؤں کسی نے زمیں سے باندہ دیئے ہوں۔

شرارتی معین اختر لہک لہک کر اعلان کر رہا تھا کہ بہنوں اور بھائیو اب آج کے شو کا سب سے بڑا سرپرا ئز ، عمران خان پہنچ گئے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ سٹیج پر آنے والے ہیں ۔ تما شائیوں کے قدم جہاں تھے وہیں جم گئے، جہاں جہاں تک جہازی ساؤنڈ سپییکروں کی آواز جس جس کے کانو ں سے ٹکرائی وہ الٹے پاؤں بھاگتا ہو اہوا واپس اپنی سیٹ پو پہنچ کر قابض ہوگیا ۔ شو مین پھر سے جان پڑ گئی۔ موسیقی کی دھنیں فضا میں بکھریں تو پلٹنے والوں کی دھکم پیل میں بھی کمی واقع ہونے لگی ،عمران خان زندہ باد کے نعروں سے کمپلیکس گھونجنے لگا۔ اب حاضرین کیلئے مقبول و غیر مقبول سنگر کی اہمیت ختم ہو چکی تھی۔اب وہ شو کے اختتام تک بیٹھنے کے لئے تیار تھے، وہ اپنے ہیرو کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ وقت گرزتا رہا۔

معین ا ختر کی چا ل تو اپنا کام دکھا گئی تھی لیکن عمران خان نے نہ تو آنے کا وعدہ کیا تھا نہ آئے ۔ شوکے ا ختتام سے کچھ دیر پہلے معین ا ختر سٹیج پر آئے اور نہائت خوسگوار موڈ میں گویا ہوئے ، دوستو، عمران خان اس شومیں نہیں آرہے ،میں نے تومزاق کیا تھا لیکن آپ کے لئے ایک خوشخبری ہے ،مگر میں وعدہ کرتا ہوں کہ جو میں کیہ رہا ہوں وہ مزاق نہیں اور وہ یہ خوشخبری یہ ہے کہ عمران خان نے شادی کرنے کا اعلان کر دیا ہے، حا ضرین میں کیا بچے کیا بڑے ،کیا لڑکے کیا لڑکیاں سب کے چہرے کھل ا ٹھے۔ عمران خان کی جانب سے شادی کیلئے رضامندی کے اظہار کی خبر ہی پاکستا نیوں کو خوش کرنے کے لئے کافی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عمران خان کی شادی کا معاملہ پاکستان کے قومی معاملات میں سے ایک اہم معاملہ ہو ا کرتا تھا، اس دن کلوسیو نما کلچرل ہال کا میوزیکل شو دیر تک چلتا رہا اور خوشی خوشی اختتام پزیر ہوا۔

کسی پاکستانی لڑکی کی بجا ئے ایک غیر ملکی لڑکی سے شادی کی خبر نے پہلی بار پاکستانیوں کو اپنے ہیرو کے بارے میں مایوس کیا، حالا نکہ عمران کئی بار کیہ چکے تھے میں شادی کے لئے تیار ہوں لیکن میں جس سے بھی شادی کروں آپ نے اعتراض نہیں کرنا۔ جمائما سے شادی نے عمران خان کے دیو مالائی بت کی پرستش میں دڑایں ڈالنی شروع کر دیں ۔ عوام نے پھر بھی اپنی انگریز بہو کا پرتپاک استقبال کیا اور نئے جوڑے کو خوب دعائیں دیں۔ عمران خان کے پاس نہ دولت و شہرت کی پہلے تھی نہ اب۔ اس دوران اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا جس سے ا س کا دل بجھ کر رہ گیا۔

اس کی ماں کینسر تھا جس کے علاج کا کوئی مو ثر ہسپتال پاکستان میں موجود نہیں تھا، کامیابیوں کی اانتہائی بلندیوں کو چھونے کے بعد اب اس کی زندگی کا کوئی خاص مْقصد رہا نہیں تھا لہذا پہلے اس نے فلاح و بہبود اور بعد میں اچانک سیاست کے خار زار میں قدم رکنے کا اعلان کردیا ۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یو نیوسٹی کے پراجیکٹس کی تکمیل کے دوران اسے اندازہ ہو کہ ریاست کا نظام اور اسکا تقریبا ہر شعبہ کرپشن کی زد میں ہے اور اسکی وجہ مفاد پرست حکمران ہیں ۔ یوں عمران خان نے نئی پارٹی بنا کر نئے انداز میں کرپٹ نظام کو جڑ سے ا کھا ڑ پھینکنے کی جدوجہد کا اعلان کردیا ، یہیں سے اسکی مشکلات کا آغاز ہو ا ،ملک پر مسلط روائتی سیاستدان ، جاگیر دار ،او ربعض دینی رہنما ؤں نے اس پر دو طرفہ حملہ کیا ،پہلے اس کی زاتی زندگی کو نشانہ بنایا اور بعد میں یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیا۔

دور حا ضر کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے انہیں اپنی پارٹی میں لانے کیلئے بھرپور کو ششیں کیں لیکن عمران خان کو خدشہ تھا کی اس طرح وہ جاری نظام کا حصہ بن کر رہ جائیں گے اور کچھ بھی نہیں بدلے گا لہذا انھوں نے مسلم لیگ نون میں شامل ہو نے سے انکار کردیا، انہی دنوں سابق صدر پروز مشرف نے آزاد کشمیر جاکر بھاریتوں کو مکے دکھائے اور کالا باغ ڈیم کو بزور قوت بنانے کا اعلان کیا تو عمران خان ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔ تاہم وہ جتنا عرصہ بھی مشرف کے قریب رہے ، ان کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے ایک متوازی لائین اختیار کر کے آگے بڑھتے رہے۔

PTI

PTI

پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے پہلے الیکشن جو انھوں لڑے اس میں انھیں بری طرح شکست ہوئی ، اس ہار کی وجہ بھی وہی پراپیگنڈا بنا ، یعنی زاتی زندگی اور یہودو نصاری کا ایجنٹ ہونے کا الزام ۔ لیکن حیرت ہے یہ الزام آج تک ثابت نہ کیا جاسکا ۔ دو ہزار بارہ کے انتخابات میں یہ گھسا پٹا کارڈ کھیلنے کی پھر کوشش کی گئی لیکن اس بار یہ چال بار آور نہ ہو سکی ، اس کی وجہ یہ تھی عمران خان خود اعتراف کر چکے تھے ہر انسان سے ز ندگی میں خطائیں سرزد ہوتی ہیں ، وہ انسان ہیں فرشتہ نہیں ۔ لیکن انھوں پاکستان کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کبھی ایسا کرنے کا سوچ سکتے ہیں ، انھوں بتایا کہ کس طرح وہ پینسٹھ اور ا کہتر کی جنگوں پاکستانی پرچم ا ٹھا کر اپنے خاندان اور محلے داروں کے ساتھ ملکر سڑکوں پر مارچ کیا کرتے تھے۔

گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاھبزادے ارسلان افتخار نے عمران خان کی ذاتی زندگی کے گھڑے مردے ایک بار پھر اکھاڑنے کی کوشش کی لیکن عمران اور ان کے ورکروں کو مشتعل نہ کرشروع ہوچکا ہے ، عمران کی شخصیت کو مسخ کرنے کا عمل جاری ہے لیکن عمران خان کے دیوانے ایک ہفتے سے اسلام آباد کی سڑکوں پر ڈتے ہوئے ہیں انہیں آج بھی اپنے لیڈر پر اتنا ہی یقین ہے جتنا کل تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کبھی بھی اصولوں پر سودہ بازی نہیں کرے گا ، ماصولوں کی بنیاد پر ماضی بعید میں اپنے کزن ماجد خان اور حال قریب میں اپنے دوسرے کزن انعام اللہ نیازی کی مثالوں سے اس نے ثابت کردیا وہ اقربا پرور نہیں۔

جاوید ہاشمی کو رخصت کر کے تو اس سب کو حیران ہی کردیا لیکن جاتے جاتے ان کو اتنا ضرور کہا جاوید ہاشمی صاحب مجھے آپ کے رو یئے پر افسوس ہے مجھے آپ سے اس موقع پر یہ ا مید نہیں تھی، یوں عمران خان نے جاوید ہا شمی کو بتا دیا کہ پاکستان میں ان سے بھی بڑا کوئی باغی موجود ہے۔ عمران خان کی حد سے بڑی ہوئی خودی نے انھیں کلام اقبال کا شیدائی بنایا اور نماز کی جانب راغب کیا۔ انھوں نے اپنے کارکنوں کو اپنی زات پر یقین اور خوف سے نجات کے جو دوسبق یاد کروادیئے ہیں وہ ان کی اگلی نسلوں کے بھی کام ائیں گے۔

آزادی مارچ کے شرکا میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں ممی ڈیڈی کہا جاتا ہے ، ممی ڈیڈی کے ٹرم ان دیہاتیوں نے ایجاد کی ہے جو گاؤں سے شہر پڑھنے آتے ہیں اور وہاں ان کا واسطہ ان امیر اور پڑھی لکھی فیملیز کے ڈفرنٹ نوجوانو ں سے پڑھتا ہے لیکن چونکہ ایک دیہاتی کے زہین سے پینڈو ہونے کا کمپلیکس شہر میں آکر کم از کم ایک نسل تک نہیں جاتا اس لئے یہ اپنے ارد گرد موجود ان لوگوں کے نہ قریب آ پاتے ہیں نہ وہ ہی انھیں کوئی زیادہ لفٹ کرواتے ہیں ، جواب میں ان کو ممی ڈیڈی کا طعنہ دے کر ا پنا کتھارسس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، عمومی طور پر ان میں سے کچھ پینڈو جب عملی زندگی میں آتے ہیں تو اپنے اختیارات کا استعمال ان کے خلاف کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔

اقربا پروری یہیں سے پروان چڑھتی ہے ا لیکٹرونک و پر نٹ میڈیا میں بیٹھے ہوئے دیہاتی پس منظر کے حامل بعض دانشوور اور کالم نگار آزادی مارچ کے ان شرکا کے لئے یہ ٹرم بطور تضحیک استعمال کر کے ا پنے قلب و جان کو خوب تسکین بخش رہے ہیں دوسری جانب ، شہر کے لوگ ان پاکستانیوں کو علیحدہ مخلوق کے طور پر دیکھتے ہیں اور انہیں شہری سہولتوں اور مراعات کے حصول میں استحصالی گروہ قرار دے کر ان سے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ برسوں سے جاری اس معاشرتی کشمکش کے نتیجے میں اور اپنے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کئے جانے کے بعد یہ لوگ بھی دم سادھ کر اپنے آپ میں مست ہو چکے تھے ، عمران خان کی طرز سیاست کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اس طبقے کو پہلی بار ملک کے سیاسی دھارے میں شامل کیا ہے۔ عمران کو علم تھا کہ یہ پڑھی لکھی اور باشعور کلاس روائتی حکمرانو ں کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوگی۔

اسکے بعد بنیادی سہولتوں سے محروم اور سال ہا سال سے تختہ مشق بنے ہو ئے صوبے کے نڈر اور غیور پٹھانوں کو جگا کر اپنے پیچھے لگا لیا ، عمران خان کے پٹھان ہونے کا بھی یقینا کریڈت ملا ۔ آزادی مارچ کے دھرنے کو دس دن سے زیادہ جاری رکھنے میں ممی ڈیڈی کلاس کا رول ناقابل فراموش ہے ، ، دھرنے میں ان نازک مزاجوں کا کھلے آسمان تلے سترہ دن گزارنا اور لاٹھی گولی کو برداشت کرنا اور ڈٹے رہنا کوئی آسان بات نہیں ، عمران خان نے ان لوگوں کو ملک کی محبت میں سرشار کر کے رکھ دیا ہے ۔مڈل اور اپر مڈل کلاس ان کے ساتھ ہے۔ یہ لوگ جنہیں پاکستان سے کوئی خاص مطلب نہیں ہوا کرتا تھا اب ملککی خاطر مرنے مارنے تل گئے ہیں پورے پاکستان میں اب کم ازکم یہ فرق ختم ہو چکا ہے کہ جب ہر پاکستانی ایک سبز پاسپورٹ اور ایک ووٹ کے حامل ہونے کے باعث برابر ہے۔

تو پھر یہ معاشرتی و طبقاتی تقسیم کیوں؟ پی ٹی آئی ان نئے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز تک لے کر آئی انھوں نے ووٹ بھی عمران خان کو ڈالا لیکن ان کا ووٹ کہاں گیا ، تحریک انصاف کا یہ واویلا اور احتجاج پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری تھا جسے روا ئتی سیاست کی رعونت نے در خور اعتنا نہ سمجھا با الآخر یہی چنگاری بڑھک کرآج آزادی مارچ کا شعلہ بن گئی ہے۔

زادی مارچ کے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں عمران خان نے وہاں سے شروع کیا جہاں ایجی ٹیشن کی تحریکیں آخر پر پہنچتی ہیں ، عمران خان کے طرزتقریر نے کسی نہ کو بخشا لفظوں نے چناؤ نے بڑے بڑوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ، نواز شریف شہباز شریف ، مولانا فضل الر حمن ، محمود اچکزئی توور کی بات ، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی ڈکٹیٹر یا حکومتی عہدیدار نے دنیا کی واحدسپر پارو کو اس طر ح مخاطب نہیں کیا تھا جیسے عمران خان نے کیا ، بھٹوکے بعد عمران خان وہ لیڈر ہے جس نے امریکہ کو للکارا ،عمران خان نے امریکہ پرواضح کردیا کہ کہ نئے پاکستان میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اس لئے امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اور اپنا منہ مند رکھے۔
پاکستانی عوام کے بارے میں دانستہ طور پر یہ غلط فہمی پھیلا ئی گئی ہے کہ پاکستانی عوام کا حافظہ بڑاکمزور ہوتا ہے ، اورع یہ کہ یہ اپنے ہیروز کو پل بھر میں زیرو کر دیتی ہیں۔

Abdul Qadeer Khan

Abdul Qadeer Khan

پاکستانی عوام پر اتنا بڑابہتان کسی جرم سے کم نہین، یہ اس بیہودہ نظام کی کارستانی ہے کہ جو بھی ان مفاد پرستوں کے خلاف ااوازاٹھاتا ہے اسے ایک پلاننگ کاساتھ بدنام کر کے زیرو کرو دیتے ہیں ، جو نظام کے خلاف سر اٹھاتا اے کاٹ دیتے ہیں انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کو ئی مقبول رہنما ہر عوام کے ان کخلاف متحد نہ کرلے۔ ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو پاکستانی عوام نے پہرو سے زیرو نہیں بنایا، اس کا جواب ان سے طلب کرنا چاہئے جنہوں نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو ان سامنے لا کر کھڑا کردیا ، اس سوال کا جواب صڈر مشرف سے لینا چاہئے جو پاکستان کو پتھروں کے دور پہنچانے کے دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے تھے ، پہلے کہتے تھے داکٹر قدیر میرے ہیروہیں او بعد اپنے اقتدار کی طوالت کی ضمانت ملنے پر ر ڈاکٹڑ خان ٹی وی معافی منگوانے کے لئے پکڑکر لے آئے تھے ْ ڈاکٹر قدیر پر وہ وقت بھی آہا جب گھر کے اندر نظر بندی سے تنگ آگئے توایک دن گھر سے نکلے اور اسلام آباد کے سڑک کے پٹ پاتھ پر احتاجا بیٹھ گئے۔

ان کے پاؤں میں چپل تھی اور پتلون سے باہ نکلی ہوئی پرانی سء پتلون قمیض میں بیٹھے پوچھ رہے کہ ان کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے، امریکی کس پ منہ سے پتھروں کے دور کی بات کرتے ہپیں کی دنیا کی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی ا فغا نستان کو مسخر نہیں کرسکے اور واپسی کیلئے سیف راستے میں پریشان پیں۔

ماضی کے ہیرو عمران خان کو سسٹم کے کل پرزوں نے زیرو کرنے سڑ توڑ کاششیں شروع کر رکھی ہیں ، اس پر یہ کہ انہوں نے ا مریکہ کا بھی للکار دیا ہے ، امریکیوں کے بارے مین مشہور ہے کہ وہ اپنے خلاف بولنے والوں کو کبھی نہین بھولتے اور موقع ملتے ہی ا پنے ٹار گٹ کو عبرت کا نشان بنانے سے نہیں چوکتے ، عمران خان دشمنوں اور مخالفوں میں بری طرح گھر چکے ہیں اس وقت میرے سامنے ان کی چھیانوے کی ایک تقریر چل رہی ہے وہ کہیہ رہے ہیں ایاک نعبد و ایا ک نستعین اور امریکہ کو بھی للکار رہے ہیں یونانیوں کا حسین دیوتا عمران خان اپنی اور اپنی خون سے سینچی ہوئی پارٹی کی بقا کی جنگ کے آ خری مرحلے میں ہے، ان کی انداز تقریر نے اب جو رخ اختیار کرلیا ہے۔

اس مقام پر پہنچنے کے بعد کوئی لیڈر صرف اسی صورت میں خاموش ہوتا ہے جب اسے ہمیشہ کے لئے بولنے سے محرو م کردیا جایء اس وقت گھمسان کی جنگ جاری ہے ، متعد د ہلاک اور سات سو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بدترین شیلنگ سے مضروب کارکنوں سے وہ کیہ رہا ہے کہ اٹھارہ سال کی جدوجہد ایک طرف اور دھرنے کے اٹھارہ دن آپکی جرات ایک طرف ، میرے پاکستانیو دنیا کی کوئی قوت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔ وہ ہارے یا جیتے اب اس سے کوئی فرق پڑتا ،کیونکہ دیوتا مر بھی جائیں تو مر کر بھی چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ! نوٹ: رائٹر کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ، بائیو گرافی کے انداز میں لکھی گئی یہ محض ایک ہلکی پھلکی تاثراتی تحریر ہے، جو تنقید کیلئے حاضر ہے۔

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر: وسیم رضا