نظریہ پاکستان اور قائد اعظم

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

تحریر : رخسانہ افضل

پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دین اسلام کے فلسفہ حیات کے تصور پہ معرض وجود میں آیا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک نظرئیے اور سوچ کے تحت وجود میں آیا تھا، نظریہ پاکستان ہی وہ بیج تھا جس سے سرسبز و شاداب پاکستان کا تصور پھوٹا تھا۔ مارچ 1940ءلاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا ”ہندو اور مسلم دو الگ مذہبی فلسفوں، سماجی روایات اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں، یہ دونوں دو مختلف تہذیبوں کے نمائندے ہیں، اور ان کے خیالات اور رسومات ہمیشہ متصادم ہی رہیں گے۔“

1944ءمیں قائد اعظم نے علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے الگ قومی تشخص کو اجاگر کیا، ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن اور نسل نہیں، ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں، زندگی گزارنے کا اپنا ایک اسلامی فلسفہ حیات اور زاویہ نگاہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف ہماری قومیت کو تسلیم کرتی ہے۔“

قائد اعظم کی نظریہ پاکستان کے لیے سوچ واضح تھی، وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے الگ وطن میں رہیں اور اپنے مذہب اور عبادات کی ادائیگی میں آزاد ہوں، اگرچہ ہندو رہنما اور گاندھی اس نظریہ کے سخت خلاف تھے وہ مسلمانوں کو آزادی دینے کے حق میں نہیں تھے اور انہوں بہت سے بہانے اور عذر بھی تراشے، ایک ہندو رہنما راج گوپال اچاریہ نے قائد کے نظریہ پہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، ”جناح کا مطالبہ اس طرح ہے جیسے دو بھائی ایک گائے کی ملکیت پہ جھگڑیں اور گائے کو 2 حصوں میں تقسیم کر لیں۔“

قائد اعظم نے ہندو رہنماﺅں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے، مسلم اکثریت کے علاقے بہت واضح ہیں ہندوستان کے نقشے پہ۔“

قائد کا نظریہ پاکستان صرف، اسلام اور اسلام کے فلسفہ حیات کو مد نظر رکھ کے تشکیل دیا گیا، وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔۔مگر افسوس کہ آج کا پاکستان بالکل اس نظریہ پاکستان کی عکاسی نہیں کرتا جس نظریہ کے تحت قائد اعظم نے جدو جہد کی اور ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔۔ اے قائد ہم شرمندہ ہیں تجھ سے۔۔

تحریر : رخسانہ افضل