عمران خان کے موقف پر بحث

Imran Khan

Imran Khan

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس موقف پر کہ ”طالبان قیادت صوبہ خیبر پی کے میں اپنے دفاتر کھولے ” بحث سے قبل ہمیں اس سوال کی شدت کو تسلیم کرنا ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کی حقیقی وجوہات ابھی تک دنیا بھر کے عوام کی نظروں سے اوجھل ہے محب وطن دانشوروں کو اس بحث کو پھیلانا ہے کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے جس میں بربادی پاکستان کے حصہ میں آئی کل کے” ڈالرجہادی” امریکی سامراج کیلئے اتنے ہی کارآمد تھے جتنے آج اُس کے لے پالک دہشت گرد ہیں مقصد ایک ہی ہے صرف طریقہ تبدیل ہوا ہے ہیلری کلنٹن نے اپنے ان درندوں کو پروان چڑھانے کے جرم کا اعتراف کانگریس کی خارجہ کمیٹی میں کیا 30 سال بعد دجال وقت کے اعتراف میں ندامت کم اور رعونت زیادہ ہے پرائی آگ میں سوویت وجود کو پارہ پارہ کرنے کی خواہش میں ضیاء نے امریکی دم چھلے کا کردار ادا خوب نبھایا۔

آج اُسی کا شاخسانہ ہے کہ ارض وطن لہو لہو ہے پھر ایک اور آمر نے جس کے بارے میں حقائق اگلنے میں نام نہاد دانشور منافقت سے کام لیتے ہیں اور یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ اُس کو اقتدار میں لانے کا سہرا ضیاء آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی ن لیگ کے سر جاتا ہے واشنگٹن سے آنے والی ایک کال پر خوفزدہ ہو کر ملی غیرت کا سودا کر ڈالا اپنے ہیلوگوں کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز جس کا آخری سرا نظروں سے اوجھل ہی اوجھل ہے اور اس سرے کو تلاشتے تلاشتے ہماری سانسیں بوجھل ہیں روز بروز معصوم پاکستانیوں کی لاشیں ہیں جو بند مُٹھی میں ریت کے ذروں کی طرح گرتی جارہی ہیں پاکستانی طالبان کے نام پر امریکہ، اسرائیل ،بھارت کے پروردہ عناصر مصلحتوں کے سارے رستے مسدود کرتے جا رہے ہیں اب ایک ایسے سوال کی زد میں ہم ہیں جس کا فائدہ ان ملک دشمن عناصر کے کھاتے میں جارہا ہے کہ جو ڈرونز کی زد میں آئے اُن کی لاشیں گریں اور اُن کے اندر اس امریکی جارحیت پر جذبہ انتقام بھی یقیناً اُبھرا مگر اس جذبہ انتقام کو کیش امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلنے والی قوتوں نے کرایا۔

Pakistani Taliban

Pakistani Taliban

مظلوم پسماندگان کے جذبہ انتقام کے نام پر امریکی ایجنٹ انسانیت کے قتل میں برسر پیکار ہو گئے جو آج پاکستانی طالبان کے نام پر ریاست پاکستان کو عدم استحکام کی طرف لے جارہے ہیں یہ امریکی ایجنٹ نسلی فسادات سے قومی تعصبات تک ایسے واقعات کو جنم دینے میں مصروف ہیں جس سے ایک اسلامی اور ایٹمی قوت کے پرامن چہرے پر ”دہشت گرد ریاست ” کا لیبل لگانا مقصود ہے برسرپیکا ر جب دو قوتوں کے درمیان مذاکرات کا عمل حائل ہوتا ہے تو سیز فائر ہونا یقینی فعل ہوتا ہے اے پی سی میں ریاست کو چلانے والی قوتوں اور ریاست کے خلاف برسر پیکار قوتوں کے درمیان مذاکرات ہونے جا رہے تھے مگر اپر دیر میں ایک دانستہ واقعہ ایسے وقت میں کر دیا گیا جب امن کی راہ ہموار ہونے والی تھی عالمی قوت امریکہ ان مذاکرات کے عمل میں مزاحم ہوئی اور اُس کے ایجنٹوں نے پاک آرمی کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی سمیت پاک آرمی کے تین اعلیٰ ترین آفیسرز کو شہید کر کے امریکہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا کھلا ثبوت فراہم کیا۔

عیسائی کمیونٹی پر حملہ کرکے امریکہ کے اس مقصد کو واضح کرنا تھا کہ پاکستان میں اسلام پسند قوتیں کسی غیر مسلم کمیونٹی کو برداشت نہیں کرتیں اس طرح وطن عزیز میں شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کی زد میں آنے والی مظلوم قوتوں کو امریکی ایما پر ریاست میں دہشت گردی پھیلانے والی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی آڑ میں بدنام کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں لینن کے سامنے موقف رکھا گیا کہ جنگ بہت خوفناک ہوتی ہے لینن نے کہا کہ ہاں کیونکہ یہ خوفناک حد تک منافع بخش ہوتی ہے وطن عزیز میں کم از کم امریکہ کی یہ جنگ خوفناک حد تک منافع بخش ہے امریکی سامراج نے سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کے بعد اپنے زر خرید دانشور فرانسس فوکو یاما سے تاریخ کے خاتمے کا تھیسس لکھوایا اور یہودی میڈیا چونکہ اُس کی دسترس میں ہے سو اُس نے اس میڈیاکے ذریعے اپنے دانشور کی تحریر کی بھر پور تشہیر کی کہ سرمایہ دارانہ نظام تاریخ کا آخری نظام ہے زندگی جو ہے جیسی ہے اس نظام کے تحت گزرے گی مگر اس تھیسس کی لاطینی امریکہ کے عوام نے اپنے مرحوم ہیرو ہوگو شاویز کی قیادت میں اس تھیسس کی نفی کردی۔

اپنی بغاوت سے لاطینی امریکہ کی عوام نے ثابت کیا کہ نہ تو تاریخ کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کو تاریخ کا آخری نظام قرار دیا جا سکتا ہے اس تھیسس کے بعد امریکی سامراج نے مسلم اُمہ کے وسائل پر تسلط جمانے کی خاطر اور اپنے لے پالک اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر اپنے ایک اور زرخرید دانشور سیموئیل بی ہنگٹن سے 1998 ء میں ”تہذیبوں کے تصادم ” کے نام سے تھیسس لکھوایا اس تھیسس کو سچ ثابت کرنے کیلئے 9/11 کا خود ساختہ واقعہ کروایا گیا جس کو بعد ازاں جواز بنا کر دہشت گردی کی نام نہاد اختراع گھڑی گئی اور مسلم دنیا کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کر دیا گیا جس میں مسلم ممالک کی عوام کو خونریزی کی آگ میں جھونک دیا گیا عراق جہاں دہشت گردوں کا کوئی وجود نہ تھا وہاں بھی اُن کے وجود کو ظاہر کیا گیا بالی، میڈرڈ، لندن میں دھماکے کروا کر مسلم دنیا کو تنہا کرنے کی خاطر دہشت گردی کا الزام مسلم دنیا کے سر تھوپ دیا گیا بعد ازاں دہشت گردی کو پوری دنیا کا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔

افغانستان، عراق، لیبیا، مصر، شام میں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے جنگیں لڑی گئیں اور اُسی طرز کی جنگ اک عرصہ سے خیبر پختونخواہ میں خود کش حملوں کی شکل میں لڑی جارہی ہے اور یہ جنگ امریکی خارجہ پالیسیوں کا حسہ بن چکی ہے پس منظر اور پیش منظر میں فرق ہوتا ہے عمران اس پس منظر اور پیش منظر کے فرق کو اُجاگر کرنا چاہتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ طالبان کی صفوں میں پرو امریکہ قوتیں کونسی ہیں اور پرو پاکستانی قوتیں کونسی ہیں۔

M.R. Malik

M.R. Malik

تحریر : ایم آر ملک