عمران خان کے خلا ف سیاسی جماعتوں کا اتحاد اثرات

Political Conditions

Political Conditions

تحریر: آصف لانگو جعفر آبادی
دیکھا جائے موجودہ سیاسی حالات بھی پچھلے 15 سالوں کی ہی طرح معمول کے مطابق ہیں۔ حکومت کے اتحادی ایک صف پر اور حکومت کرنے کے منتظر دوسرے صف پر کھڑے احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح سابق صدر پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کے دور حکومت میں چند اتحادی مشرف کے حامی جس میں تحریک انصاف عمران خان اور جمعیت علماءاسلام، متحدہ مجلس عمل مولانا فضل الرحمن وغیرہ مشرف کے اتحادی تھے تو دوسری جانب محترمہ بے نظیر اور میاں نواز شریف اسے کے خلاف ملکی و غیر ملکی سطح پر احتجاج میں مصروف تھے ۔آصف علی زرداری کے دور میں بھی مسلم لیگ ن سمیت متعددسیاسی پارٹیاں اختلاف میں تھے لیکن آصف علی زرداری کی سیاسی دانشمندی نے انھیں ٹھنڈ ی اختلاف پر راضی رکھا لیکن پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چند ہزار نوجوانوں سمیت آصف علی زرداری کی سیاسی مخالفت جاری رکھی اور الیکشن میں نیم ناکامی کے باعث اب بھی میاں نواز شریف سمیت متعدد سیاسی کھلاڑیوں کے خلاف نوجوانوں کو متحد کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ہمیشہ پیپلز پارٹی ، آصف علی زرداری کے دور میں بھی ان سے کوئی مفاہمت نہیں کی اور نہ ہی اب مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کے ساتھ کوئی مفاہمت کرنے کو زرا برابر بھی تیار ہیں ۔

14اگست 2014ء سے شروع ہونے والا لمبا احتجاج و دھرنا اب تک جاری ہے اسلام آ باد چڑاؤ اور ملک کے بڑے شہروں میں کامیاب جلسوں کے بعد عمران خان اب تک حکومت کے خلاف گرم نظر آ رہے ہیں۔عمران خان تمام بڑے سیاسی جما عتوں جس میں مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، جے یو آئی ف اور اے این پی وغیرہ سب کے ساتھ بیان بازی کی جنگ میں مصروف ہیں تو یہ جماعتیں بھی خاموش ہر گز نہیں ہیںعمران خان ہر جگہ نقطہ چینی کرتے ہیں تو جواب بھی ملتا ہے جس طرح گز شتہ روز پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء صوبائی وزیر شرجیل میمن نے بیان میں کہا تھا کہ ” عمران خان کی مثال: سو چوہے کہا کر بلی حج کو چلی ” جیسی ہے ۔ دوسری جانب وفاقی و زیر اطلا عات سینٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ” بھارتی جنرل ا روڑہ نے بھی لاہور بند کرنے کی خواہش کی تھی اب عمرا ن خان بھی شوق پورا کرلیں وہ بھی ناکام ہوں گے ۔ عمران خان لاہور بند نہیں کرا سکیں گے لاہور والے باہر نکلیں گے ناشتہ کریں گے اور رات کو کھانا فوڈ اسٹریٹ پر کھا ئیں گے، عمران خان یلغار سے شہر بند نہیں ہو سکتا ، حکومتیں خواہشات پر نہیں بلکہ بیلٹ اور ووٹ کے زریعے آ تی ہیں ، جو لوگ اپنے لوگوں کو حقوق نہیں دے سکتے وہ کسی اور کو کیا حقوق دیں گے ، ان کا کوئی ماضی نہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ تحریک انصاف کا احتجاج کو پروگرام تبدیل ہو رہا ہے ، 8دسمبر سے فیصل آ باد سے احتجاج شروع کر رہے ہیں ، پھر کراچی جائیں گے اس کے بعد 15 کو لاہور اور 18کو ملک کو بلاک کر دیں گے ۔ عوام کو تکلیف ہوگی اس پر معذ رت کرتا ہوں در حقیقت آ زادی کے لئے قربانی دینا پڑتی ہے ۔طاہر القادری کے جانے کے بعد حکومت مذا کرات سے مکر گئی، جوڈیشل کمیشن کے قیام سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔ ہمارے پاس دھاندھلی کے ثبوت ہیں ۔ جب تک جوڈیشل کمیشن کا م شروع نہیں کرتا پلان سی پر عمل شیڈول کے مطابق جاری رکھیں گے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوریت میں احتجاج کرنا سب کا حق ہے دھاندلی والوں کو سزائیں نہ دلوائیں تو یہ باریاں لیتے رہیں گے ، شرط لگاتا ہوں کہ پی ٹی وی پر حملہ حکومت نے خود کر ایا ۔ نواز شریف فوج کی پید اوار ہیں ، وہ فوج کو بد نام کرنا بند کریں فوج کو طعنہ دینے سے پہلے اپنے گریبان کو جھانکیں تو بہتر ہے نواز شریف دھاندلی کے بادشاہ ہیں۔

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری چند دن پہلے علاج کے سلسلے میں لاہور سے امریکا روانہ ہو گئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل یا سمجھو تہ کر کے نہیں جا رہا جلد واپس آ کر انقلاب کا سفر وہی سے شروع کروں گا جہاں سے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ علاج کے بعد بلا تاخیر اپنے عوام کے درمیاں ہوںگا، ایسی کوئی جد و جہد اس نظام کو بد لنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی جس میں عوامی تحریک شامل نہ ہو گی۔ نواز شریف اور شہباز شریف کسی مغا لطے میں نہ رہیں ہم یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے حکم اور اجازت کے بغیر پولیس 12 گھنٹے تک نہتے اور معصوم شہریوں پر گو لیاں بر سا سکتی ہے یا لاشیں گرا سکتی ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کسی قسم کے کمپرو مائز کے تصور کو بھی شہدا کے خون سے بے وفائی اور غداری سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے دھرناسے عوام میں شدید حوصلہ افزائی ہوئی ہے زیادہ فائدہ نہیں تو کم از کم عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو چکی ہے اب عوام اپنی حقوق کو مانگ تیز کر رہی ہے ۔ آ نے والے سیاسی دور میں اب ہر سیاست دان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جس طرح ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی( انتہائی سینئر اور پاپولر سیاست دان ) سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آ زاد امید وار عامر ڈوگر ضمنی الیکشن میں بھر پور کامیابی حاصل کر کے ملک سیاسی سوچ میں تبدیلی کی بنیاد رکھی ہے ۔ یہ نہ صرف عمران خان کی کامیابی بلکہ مخدوم جاوید ہاشمی( انتہائی سینئر اور پاپولر سیاست دان ) کی ناکامی بھی ہے کہ ہاشمی کی باغی ہونے کے بعد ہاشمی کو سیاسی میدان میں بہت بڑا نا کامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عمران خان کے جلسے و جلوسوں سے عوام شعور پیدا ہو چکا ہے جس سے ملک میں ممکنہ تبدیلی نظر آ رہی ہے ۔اس سے ملک میں معاشی و معاشرتی طور پر بہتری ثابت ہوگا۔ پاکستان میں واحد لیڈر عمرا ن خان ہی ہے جو ملک کے لئے سیاسی جنگ لڑ رہا ہے دوسری جانب پاکستان کی سب جماعتیں عمران خان کے خلاف متحد و پابند ہیں لیکن عمرا ن خان کو سلام پیش کرنا چاہئے کہ سب کی مخالفت کے باوجود اپنی ٹارگیٹ سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے کہ سب جماعتیں الیکشن کو دھاندلی تصور کرتے ہیں اس دھاندلی نظام حکومت میں آ نکھ بند کر کے وقت گزار رہے ہیں اس اندھیر نگری تعاون سے موجودہ سیاسی جماعتوں کو ممکنہ نقصان کا سامنا کرنا بھی پڑ سکتا ہے ۔ آ نے والے الیکشن الیکٹرنک ہوئے تو نتیجہ حیران کن ہو سکتے ہیں۔ شاید ان جماعتوں کی یہ پوزیشن نہ رہے ان کو ووٹ تو پڑ سکتے ہیں لیکن امیدوار واضع کامیابی حاصل کرنے کے بجائے چند سو یا چند ہزار ووٹ سے شکست کھاتے جائیں ۔اب یہ بھی نہیں ہے کہ سب
جماعتیں ناکام ہونگے لیکن بہت اثرات مرتب ہونگے۔

Asif langove

Asif langove

تحریر: آصف لانگو جعفر آبادی