بھارت آسٹریلوی اخبار کی رپورٹ پر اتنا برہم کیوں ہے؟

India Coronavirus

India Coronavirus

آسٹریلیا (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت نے آسٹریلیا کے ایک اخبار کی ایک رپورٹ پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، بہتان آمیز اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ آسٹریلوی اخبار نے کورونا بحران میں شدت کی ذمہ داری مودی حکومت پر عائد کی ہے۔

بھارت نے کورونا وائرس کے بحران کے حوالے سے وزير اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے کے لیے آسٹریلیا کے ایک اخبار نے، ’’مودی بھارت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے‘‘ کی ہیڈ لائن کے ساتھ جو مضمون شائع کیا تھا، اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اخبار اس طرح کی “بے بنیاد” رپورٹنگ کرنے سے باز رہے۔

آسٹریلیا میں بھارتی سفیر نے روز نامہ ‘دی آسٹریلین’ کی اس رپورٹ کو بے بنیاد، بہتان آمیز اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ غلط معلومات افشاں کرنے کے مقصد سے لکھی گئی ہے اور اخبار کو اس کا جواب بھی شائع کرنا چاہیے۔

بھارتی ہائی کمشنر نے ‘دی آسٹریلین’ کے ایڈیٹر کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے، “بھارتی حکومت کی جانب سے وبا سے نمٹنے کے لیے جن اقدامات کو عالمی سطح پر سراہا جاتا رہا ہے، اسی نقطہ نظر کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے یہ رپورٹ شائع کی گئی ہے۔”

اس خط میں بھارتی ہائی کمشنر نے گزشتہ ایک برس کے دوران ان اقدامات کی تفصیل بھی درج کی ہے، جو حکومت نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے اٹھائے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح بھارت نے اس وبا پر قابو پانے کے موثر انتظامات کیے ہیں۔

آسٹریلیا کے معروف روزنامے ‘دی آسٹریلین’ نے بھارت میں کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے جو مضمون شائع کیا تھا وہ دراصل پہلے ہی ‘دی ٹائمز’ میں “مودی نے بھارت کو لاک ڈاؤن سے نکال کر کووڈ کی قیامت میں لانے کی قیادت کی” کی سرخی کے ساتھ شائع ہو چکا تھا۔

اسی مضمون کو ‘دی آسٹریلین’ نے ’’مودی بھارت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے‘‘ کی تبدیل شدہ سرخی کے ساتھ اپنے اخبار میں دوبارہ شائع کیا تھا اور اسی پر بھارت کو شدید اعتراض ہے۔

یہ مضمون آن لائن بھی دستیاب ہے جس میں بھارت میں کورونا وائرس کے موجودہ بحران پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور دلائل کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح مودی حکومت کی ناکام پالیسیوں کے وجہ سے اس طرح کا شدید بحران پیدا ہو گيا۔

اس کے مطابق ایک ایسے وقت جب بھارت میں کورونا وائرس کے انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا تو خود وزیر اعظم مودی اور ان کے سینیئر وزراء ایسی بڑی انتخابی ریلیاں کرنے میں مصروف تھے جس میں بغیر کسی ضابطے کے لاکھوں لوگ شرک ہوتے رہے۔

ماہرین نے بار ہا تنبیہ کی اس کے باوجود ہندوؤں کے مذہبی تہوار کمبھ جیسے میلے کی اجازت دی گئی جس میں لاکھوں لوگ ایک ساتھ جمع ہوتے رہے اور اس سب کے درمیان حکومت نے آکسیجن کی کمی اور ہسپتالوں کی صورت حال پر قطعی توجہ نہیں دی۔

اخبار نے لکھا، “خود پرستی کا نشہ، قوم پرست سیاست، صحت کا بد ترین نظام، ویکسین کا سست رو عمل اور قابو پانے کے لیے بندشوں کے بجائے معیشت کو فروغ دینے کے خمار جیسی پالیسیوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔”

مضمون کا ٹیزر کچھ یوں ہے، “متکبر، انتہائی درجے کی قوم پرستی اور بیوروکریٹک نااہلی نے مل کر بھارت میں اتنی بڑی سطح کا بحران پیدا کیا ہے، جس میں ہجوم سے پیار کرنے والا وزیر اعظم شیخی بگھار رہا ہے جبکہ عام شہریوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ یہ کہانی اسی پر ہے کہ آخر یہ سب اتنے خوفناک طریقے سے غلط کیسے ہوا۔”

بھوپال سمیت کئی متاثرہ شہروں میں بہت سے شمشان گھاٹوں نے زیادہ لاشوں کو جلائے جانے کے لیے اپنی جگہ بڑھا دی ہے لیکن پھر بھی ہلاک شدگان کے لواحقین کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ بھوپال کے ایک شمشان گھاٹ کے انتظامی اہلکار ممتیش شرما کا کہنا تھا، ’’کورونا وائرس دھڑا دھڑ ہمارے لوگوں کو نگلتا جا رہا ہے۔‘‘

حال ہی میں بھارتی حکومت نے ٹویٹر سے کووڈ 19 کے حوالے سے حکومت کی نکتہ چینی کرنے کے لیے بعض ٹویٹس کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ بھارت میں کئی حلقوں نے اس پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بھارت ایک غیر مثالی بحران سے دو چار ہے اور حکومت کو اس پر بھی ذرا سی تنقید برداشت نہیں ہے۔

اس پر حکومت نے جواباً کہا تھا کہ اس نے غلط معلومات پر مبنی ٹویٹس ہٹانے کو کہا ہے اور اس کا نکتہ چینی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔

بھارت اس وقت کورونا وائرس کی بدترین لہر سے دو چار ہے جہاں گزشتہ ایک ہفتے سے تقریبا ہر روز ساڑھے تین لاکھ نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں اور ہر روز تقریبا تین ہزار افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گزشتہ برس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور صحت کے نظام میں کوئی بہتری کرنے کی کوشش نہیں کی اسی لیے آکسیجن اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔