بھارت کے ساتھ اختلافات ’دوستانہ‘ ہیں: مائک پومپیو

Mike Pompio

Mike Pompio

بھارت (جیوڈیسک) بھارت کے ساتھ تجارت اور ایران سمیت کئی معاملات پر نئی دہلی کے دورے پر آئے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ بھارت اور امریکا کے اختلافات ’دوستانہ‘ ہیں اور دعویٰ کیا کہ باہمی تعلقات نئی بلندیوں کی جانب گامزن ہیں۔

مائک پومپیو نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس کے ساتھ بھارت کا میزائل سودا اور ایران سے تیل برآمد کرنے کے مسئلے پر بات چیت ہوئی تاہم دونوں رہنماوں نے ان مسائل کے حل کے حوالے سے واضح طورپر کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا۔

بھارتی وزیر خارجہ نے ایران تنازع کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا،”دونوں رہنماؤں نے امریکا اور ایران کے درمیان موجودہ کشیدگی پر تفصیلی بات چیت کی۔ ایران کے سلسلے میں ہمارا ایک مقررہ نقطہء نظر ہے۔ اس معاملے پر ہم نے اپنے خیالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔ ہم دونوں یقینی طور پر اس سلسلے میں ایک دوسرے کی فکر مندیوں کو بہتر طور پر جانتے تھے اورمیں مانتا ہوں کہ بات چیت کے اختتام پر ہم دونوں کچھ امور پر متفق ہوئے۔‘‘

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں بھارت اورامریکا کے مابین تجارتی اختلافات کافی بڑھ گئے ہیں۔ امریکا کے دباؤ کی وجہ سے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری بند کردینی پڑی ہے اس کے علاوہ امریکا بھارت پر روس سے 5.2 بلین ڈالر کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ایس 400 نہ خریدنے کے لئے بھی دباؤ ڈال رہا ہے۔

ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی میں بھارت کا نقصان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کا کہنا تھا،”آبنائے ہرمز کو کھلا رکھنا اہم ہے لیکن ایران کی طرف سے دہشت گردی کوحکومتی اعانت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارتی عوام کو دہشت گردی کے نقصانات کا اندازہ ہے۔ ماضی میں بھارتی عوام کو دہشت گردی سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بھارت کے ساتھ اشتراک کرکے ہم اس عالمی خطرے کا خاتمہ کرنے کی امید کرتے ہیں۔ بھارت اور امریکا دونوں ہی دہشت گرد ی کے خطرے سے واقف ہیں اور اس خطرے کو روکنا یقینی بنانا چاہتے ہیں۔”

اس دوران یہاں اپوزیشن جماعتوں نے امریکی دباؤ کے آگے جھک جانے پر مودی حکومت کی نکتہ چینی کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بھارت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحت کس ملک سے دوستی کرے اورکس سے نہ کرے۔ اس معاملے میں کسی ملک، خواہ وہ امریکا ہی کیوں نہ ہو، کی مداخلت برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سکریٹری اتل کمار انجان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”مائک پومپیو کی آمد ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکا بھارت کے روایتی دوست ایران کی گھیرا بندی کرنے میں مصروف ہے تاکہ وہ ایران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرسکے۔ اسی طرح کا رویہ وینزویلا کے ساتھ بھی ہے جب کہ ان دونوں ہی ملکوں کی معیشت تیل پر مبنی ہے اور امریکا نے دنیا کے ممالک پر ان ملکوں سے تیل خریدنے پر پابندی لگادی ہے۔ اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا۔”

دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا،”دو ملکوں کے طورپر اور وزیر خارجہ کے طور پر اپنے خیالات اور مفادات میں تال میل برقرار رکھنا سفارت کاری کا کام ہے۔ کسی بھی تعلق میں کبھی نہ کبھی کچھ معاملات تو سامنے آئیں گے اور مجھے لگتا ہے کہ ان معاملات پر ہم نے بات چیت کی۔” جے شنکر نے کہا کہ بھارت اورامریکا ایک دوسرے کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں جو درحقیقت گہرے اور وسیع تعلقات پر مبنی ہے اوراس میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کے حوالے سے وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا،”وزیراعظم مودی نے تجارت، معیشت، توانائی، دفاع، انسداد دہشت گردی اورعوام کے مابین باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے تمام ممکنہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کا عہد کیا۔” بیان میں تاہم اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اس ملاقات کے دوران بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال بھی موجود تھے۔ یہ ملاقات اس لحاظ سے اہم تھی کہ آئندہ 28-29 جون کو جاپان کے اوساکا میں مجوزہ جی 20 سمٹ میں وزیراعظم مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔