پوزیشن ہولڈر مسلم طلباء کی شہادت

India

India

بھارت خود کو بہت بڑی جمہوریت سمجھتا ہے۔ نام نہاد جمہوریت اور سیکولر کے دعویدار ملک میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کیساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کی نہ تو جان محفوظ ہے اور نہ ہی مال۔ بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات بھارت کے جمہوری اور سیکولر چہرے پر ایک طمانچہ ہیں۔

ان فسادات میں ملوث افراد کو سزا نہ ہونا اور انہیں مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دینا انسانی اور عالمی انصاف کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتیں بھی ہندوئوں کے ظلم وستم سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد ،سکھوں کے گوردوارے اور عیسائیوں کے چرچ سب ہندوئوں کے مظالم کی داستانیں سنا رہی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف مظالم کا آغاز قیام پاکستان سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔پورے بھارت میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہزاروں مسلم کش فسادات کروائے گئے۔ مسلمانوں پر مظالم کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آئیں کہ جنہیں سن کرانسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

مسلم کش فسادات ہونے کے بعد پولیس فسادیوں کو لگام دینے کی بجائے مسلمانوں کو ہی گرفتار کر لیتی ہے۔بھارت میں دہشت گردی کے جتنے بھی اہم واقعات ہوئے ان میں ہندوانتہاپسند تنظیمیں یا فوجی ملوث نکلے۔ بھارت میں جعلی پولیس مقابلوں میں بھی بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا جاتا رہا۔ بھارت میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد کو جعلی مقدمات میں ملوث کر کے جیل میں ڈالا اور ان کی ترقیوں کے راستے بند کئے جارہے ہیں۔ بھارتی جیلوں میں ہزاروں مسلمان ایسے ہی بے بنیاد مقدمات میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔

بھارت کی نیشنل ہیومن رائٹس کمشن (این ایچ آر سی) کے مطابق 2002ء سے اب تک 995جعلی پولیس مقابلوں میں 2000سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ( ان مقابلوں کی تعداد حقیقت میںبہت زیادہ ہے)۔ ان مقابلوں میں شہید ہونیوالے مسلمانوں میں سے 400کے قریب پوزیشن ہولڈر طالبعلم تھے۔ مذکورہ طالبعلم انجینئرنگ، ڈاکٹریٹ، ایٹمی ٹیکنالوجسٹ جیسے شعبوں میں زیرتعلیم تھے۔ انہیں صرف اس وجہ سے شہید کیا گیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھارت کے عسکری و کاروباری اداروں کے سربراہ نہ بن سکیں۔ زیادہ تر پولیس مقابلے بھارتی شہروں ممبئی ، چنائی ، کولکتہ اور ریاست گجرات میںہوئے۔این ایچ آر سی کے مطابق 2002ء سے 2008ء تک ہونے والے جعلی مقابلوں کی تعداد 440 ہے۔اترپردیش میں سب سے زیادہ 231جعلی مقابلے ہوئے جبکہ اترپردیش میں 231، راجھستان میں 33،مہاراشٹر امیں 31، دہلی میں 26، آندھرا پردیش میں 22 اور اتر انچل میں 19جعلی مقابلے ہوئے۔ 2009ء سے فروری 2013تک 555جعلی پولیس مقابلے ہوئے۔ ان میں بھی اترپردیش 138مقابلوں کے ساتھ سرفہرست رہا۔ منی پور میں 62، آسام میں 52، مشرقی بنگال میں 35اور جھارکھنڈ میں 30 اجتماعی جعلی پولیس مقابلے ہوئے۔

اترپردیش 2002 سے 2013 تک بھی 369جعلی اجتماعی پولیس مقابلوں کیساتھ سرفہرست رہا۔ 2002ء کے ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد گجرات میں کئی جعلی پولیس مقابلے ہوئے جن میں کئی بے گناہ افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ 2002ء سے 2007ء کے دوران گجرات میں 4ہائی پروفائل اجتماعی قتل کے جعلی پولیس مقابلے ہوئے۔ یہ چاروں جعلی مقابلے احمدآباد کے ڈی آ ئی جی وانجرا کی سربراہی میںہوئے۔ ان میں صادق جمال جعلی مقابلہ 2003، طالبہ عشرت جہاں کیس 2004، سہراب الدین شیخ جعلی مقابلہ کیس 2005خاص طور پر نمایاں ہیں۔ ان کے بارے میں بھارتی و غیر ملکی ہیومن رائٹس تنظیموں اور بھارت کے ہی چند سکیورٹی اداروں کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ پولیس تشدد کے بعد جعلی مقابلے میں شہید کئے گئے۔

Narendra Modi

Narendra Modi

گذشتہ ماہ بھارتی وزیر قانون کپل سبل نے بھی اعتراف کیا تھاکہ عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ سمیت چار مسلمانوں کو جعلی مقابلے کے دوران شہید کیا گیا۔ پریس کانفرنس کے دوران سبل نے کہا کہ نریندر مودی نے اپنی سیاسی حیثیت بڑھانے کیلئے 2005ء میں احمد آباد میں جعلی مقابلہ کے دوران عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ سمیت چار مسلمانوں کو قتل کرا دیا اور پولیس سے رپورٹ جاری کرائی کہ ملزم نریندر مودی پرحملہ کرنے آئے تھے تاہم بعد میں سیاسی رہنمائوں اور حکومت کی مداخلت پر کرائی گئی تحقیقات میں مقابلہ جعلی ثابت ہوا۔ جامع مسجد دہلی کے شاہی امام اکثر ‘پولیس مقابلوں ‘کو مکمل طور پر جعلی قرار دے چکے جبکہ 2008ء میں دو بے گناہ مسلمانوں کی شہادت پر انہوں نے کہا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو ہراساں کرنے کیلئے جعلی مقابلے کروا رہی ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفرنگر میں ہندو انتہاء پسندوں نے محض موبائل فون کی قیمت کے تنازعہ پرہی اٹھارہ سالہ مسلمان طالبعلم کوپہلے تشدد کا نشانہ بنایا ، سڑک پر گھسیٹا اور گولی مار کر شہید کر دیا۔ اس مظلومانہ شہادت کیخلاف مسلمان کمیونٹی نے شدید احتجاج کیا تاہم بھارتی پولیس نے مقتول کے والدین کو ہی مجرم ٹھہراتے ہوئے خاموش رہنے کی دھمکی دیدی۔ رواں ماہ کے آغاز میں اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرتعلیم کشمیری طلباء کو انتہا پسندوں نے ہاسٹل میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے زبردستی پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے کی کوشش کی، جس پر کشمیری طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب یونیورسٹی ہاسٹل میں نامعلوم افراد اچانک طلباء کے کمروں میں گھس آئے اور تین کشمیری طلبا کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے زبردستی پاکستان مخالف نعرے لگوائے۔اس واقعے کے خلاف کشمیری طالبعلموں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کیا اور تحفظ فراہم نہ کرنے پر ہوسٹل انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔

متاثرہ طلباء کا کہنا تھا کہ اطلاع دینے کے باوجود پولیس بروقت نہ پہنچ سکی۔طلباء کے مطابق ہم کسی صورت بھی پاکستان مخالف نعرے نہیں لگائیں گے۔ پاکستان ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، اگر بھارتی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے پاکستان کی محبت ہمارے دلوں سے نکال دینگے تو یہ انکی خام خیالی ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کشمیری طلباء کے ساتھ رونما ہونیوالا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ قبل ازیں مارچ 2013 میں جب ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران پاکستان نے بھارت کو شکست دی۔ اس موقع پر کشمیری طلباء نے اترپردیش کے شہر میرٹھ کی ایک نجی یونیورسٹی میںپاکستان کی جیت کی خوشی میں جشن منایا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس موقع پر 67طلباء کو نہ صرف یونیورسٹی سے خارج کر دیا بلکہ بغاوت کا مقدمہ بھی درج کروا دیا۔ جگ ہنسائی ہونے پر مرکزی حکومت کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد بغاوت کا مقدمہ خارج کردیا گیا۔ جب مذکورہ طالب علم واپس اپنے گھر پہنچے تو ان کی حالت غیر تھی۔ کشمیری طلباء نے کہاہے کہ بھارت میں زیر تعلیم کوئی بھی طالبعلم محفوظ نہیں۔ یونیورسٹیز کی انتظامیہ جب چاہتی ہے بہانے بنا کر طلبہ کو نکال دیتی ہے۔حریت پسند رہنمائوں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے اس صورتحال کو جرمنی کے نازی طرز عمل سے تعبیر کیا ۔ علی گیلانی نے کہا بھارت کشمیری طلبہ کو پاکستان جانے کیلئے پاسپورٹ دینے کو بھی تیار نہیں۔

یاسین ملک نے کہا کہ کشمیری طلبا پر تشدد سے سیکولر بھارت کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ طلبا کے ساتھ اس طرح پیش آنے سے آزادی کی تحریک کو روکا جاسکتا ہے تو بہت بڑی غلط فہمی ہے، پچھلے 66 سالوں سے کشمیری عوام کو ایک ایک کرکے فوج، پولیس اور دیگر فورسز کی طرف سے ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن آزادی کے لئے کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ کشمیری طلباء پر بھارتی ہندو انتہا پسندوں کا تشدد کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ شروع دن سے کشمیریوں کو اسی صورتحال اور ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ ایسی مذموم حرکتوں سے تحریک آزادی میں اور زیادہ تیزی آئے گی۔سابق امیر جماعت اسلامی سیدمنور حسن نے کشمیری طلباء پر تشدد کو بھارت کی پاکستان دشمنی کا کھلا ثبوت قرار دیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم صرف کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔

بھارت میں طالب علم کا مسلمان خصوصاً کشمیری ہونا بہت بڑا جرم بن چکا ہے۔ بانی پاکستان نے بھی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بھارتی مسلمانوں کی اخلاقی اور سیاسی مدد کرے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی میڈیا خصوصاً اور پاکستانی حکومت عموماً عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ بھارت کی مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی طرف مبذول کروائیں۔

Rashid Tabassum

Rashid Tabassum

تحریر: محمد راشد تبسم