بھارت: گریٹا تھنبرگ کا ٹوئٹ اور بھارتی کارکنوں کی گرفتاریاں

Protest

Protest

دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) کسانوں کی تحریک کی حمایت کے حوالے سے تحفظ ماحول کی کارکن گریٹا تھنبرگ کے ٹوئٹ کے سلسلے میں تحفظ ماحول کی ایک کارکن پہلے ہی گرفتار کی جا چکی ہے۔ ‘ٹُول کِٹ‘ کیس میں بھارتی پولیس مزید دو کارکنوں کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔

بھارت میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے حوالے سے سویڈش ایکٹیویسٹ گریٹا تھنبرگ کے ذریعہ ٹوئٹ کیے گئے’ٹول کٹ‘ کے معاملے میں ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن اکیس سالہ دیشا روی کی گرفتاری کے بعد پولیس وکیل اور ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن نکیتا جیکب اور ان کے ساتھی شانتانو مولوک کو بھی گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ دونوں کی گرفتاری کے لیے غیر ضمانتی وارنٹ جاری کردیے گئے۔

دوسری طرف دونوں کارکنوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اس دوران دہلی کے پولیس کمشنر ایس این سریواستوا نے منگل سولہ فروری کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ”دیشا روی کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی قانونی کارروائی کی جائے گی خواہ کسی کی عمر بائیس برس ہو یا پچاس برس۔ قانون سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔”

سویڈن سے تعلق رکھنے والی تحفظ ماحول کی کم عمر کارکن گریٹا تھنبرگ نے اس ماہ کے اوائل میں ایک ‘ٹول کٹ‘ ٹوئٹ کیا تھا۔ جس میں بھارت میں حکومت کے خلاف کسانوں کے مظاہرے کے حوالے سے مبینہ پروگرام کا لائحہ عمل بتایا گیا تھا۔

دہلی پولیس ممبئی سے سرگرم وکیل نکیتا جیکب اور ان کے انجینئرساتھی شانتانو مولوک کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ یہ دونوں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم سے وابستہ ہیں اور کسانوں کی تحریک کی بھی حمایت کرتے رہے ہیں۔ تاہم پولیس کا دعوی ہے کہ ان دونوں کا تعلق پوئٹک جسٹس فاؤنڈیشن نامی تنظیم سے ہے۔

نکیتا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کی ایک ٹیم گیارہ فروری کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر بھی گئی تھی اور وہاں سے کچھ ذاتی کاغذات اور الیکٹرانک آلات ضبط کرکے لے گئی۔ انہوں نے نکیتا کے خلاف درج ایف آئی آر کی ایک نقل بھی طلب کی ہے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ پولیس نے انہیں اب تک یہ نہیں بتایا کہ ان کے خلاف کیا الزامات ہیں۔

مہاراشٹر کے بیڑ ضلعے کے رہنے والے سانتانو نے عدالت میں پیش کردہ اپنی درخواست میں کہا ہے کہ دہلی پولیس کے عملے نے ضروری ضابطوں پر عمل کیے بغیر ان کے گھر سے بہت سارا سامان ضبط کر لیا اور ان کے والدین پر بھی دباو ڈالا جا رہا ہے۔ شانتانو نے عدالت سے پیشگی ضمانت کی درخواست کی ہے تاکہ وہ دہلی میں عدالت کے سامنے حاضر ہوکر اپنا موقف پیش کرسکیں۔

دو روز قبل ہی پولیس نے دیشا روی نامی اکیس سالہ کارکن کو بنگلورو میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دیشا نے حکومت مخالف’ٹول کٹ‘ کو ایڈٹ اور تقسیم کیا تھا۔ دہلی پولیس کے ایک اعلی افسر کے مطابق ”اس ٹول کٹ کا اصل مقصد گمراہ کن معلومات پھیلانا اور حکومت کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا ہے۔”

سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان تینوں کے کینیڈا میں واقع پوئٹیک جسٹس فاونڈیشن سے بھی تعلقات ہیں جو مبینہ طور پر بھارت میں سکھ اکثریتی علاقے میں ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے خالصتان تحریک کی حمایت کرتی ہے۔

پولیس کا یہ بھی دعوی ہے کہ ان تینوں کارکنوں نے 26 جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ سے قبل مذکورہ تنظیم کے بانیوں کے ساتھ ایک زوم میٹنگ میں حصہ لیا تھا جس میں کسانوں کی یوم جمہوریہ ٹریکٹر ریلی کے سلسلے میں ‘ٹوئٹ کا طوفان برپا کر دینے‘ کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں ساٹھ ستر لوگوں نے حصہ لیا تھا اور اس کے بعد مذکورہ ٹول کٹ بنائی گئی۔

دیشا روی کی گرفتاری پر بھارت اور دیگر ملکوں میں سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا ”دیشا روی کی گرفتاری جس انداز میں کی گئی اس سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارت میں جمہوریت کے قتل میں تیزی آگئی ہے۔ لیکن بھارت کے جوان اب خاموش نہیں رہیں گے۔”

برطانوی رکن پارلیمان کلاؤڈیا ویب نے بھی ایک ٹوئٹ کر کے کہا ”دو خواتین، اکیس سالہ طالبہ دیشا روی اور مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم چوبیس سالہ نودیپ کور کو کسانوں کی تحریک کی پرامن حمایت کرنے پر نشانہ بنایا گیا، گرفتار کرلیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ آمریت کے ذریعہ آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ خاموش نہ رہیں۔”

قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔

مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے کچھ اکاؤںٹس بند کرنے کے مطالبے کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سبھی بھارتی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔

بھارت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر آج ہزاروں احتجاجی کسان اپنے ٹریکٹر سمیت قومی دارالحکومت میں داخل ہو گئے اور لال قلعے پر اپنا پرچم لہرا دیا۔ پولیس نے انہیں روکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل داغے۔

بھارتی دارالحکومت میں پولیس نے دہلی کی سرحدوں پر خاردار تاروں کی باڑ لگا دی ہے، خندقیں کھود دی ہیں اور لوہے کی لمبی لمبی کیلیں گاڑ دی ہیں تاکہ کسان قومی دارالحکومت میں داخل نہ ہونے نا پائیں۔

مودی حکومت ٹوئٹر سے ناراض، ‘پاکستانی حمایت یافتہ‘ اکاؤنٹس کی بندش کا حکم
مودی حکومت اب ٹوئٹر سے ناراض ہے اور اس نے مبینہ طور پر ‘پاکستانی حمایت یافتہ‘ سینکڑوں اکاؤنٹس کی بندش کا حکم دے دیا ہے۔