عقل کو ہاتھ مارو

Allha

Allha

دنیا میں ایک قوم گزری ہے بلکہ کہیں کہیں ابھی بھی موجود ہے جو کہ دنیا کی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے ایک رپورٹ کے مطابق اس کی تعداد چند کروڑ ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے ایک پیغمبر خدا کے کا پیغام لے کر آئے تو ان کے پیروکار یہودی کہلائے جنہیں قرآن میں بنی اسرائیل کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ کئی لحاظ سے یہ مظلوم قوم بھی ہے،اور حقیر بھی۔ آج بھی یہ لوگ خود کو اعلیٰ و ارفع اور خدا کی اعلیٰ ترین قوم تصور کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ لوگ جہاں بھی گئے فساد، سازشیں اور اجارہ داریاں پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ اور بڑی بڑی ریاستوں اور سلطنتوں میں انتہائی پیچیدہ اور خطر ناک ترین سازشوں اور بادشاہوں کے قتل سے لیکر پیغمبروں کے قتل تک کے گھٹیا اور غلیظ کارنامے سر انجام دیے۔اور پھر اللہ کی طرف سے پھٹکارے گئے جس ملک میں گئے وہاں سے نکالے گئے اور ذلیل و رسوا ہوئے۔

عرب ،مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں سے بے دخل کر دیے گئے مگر پھر ان لوگوں نے دنیا پر قبضہ کر نے اور انتقام لینے اور دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ایک گہری، پیچیدہ مگر مشکل اسٹیٹرجی تیار کی اور پھر سالہا سال اس پر عمل کرتے رہے اور پھر دنیا پر چھا گئے۔ یہ بات انیسویں صدی کے آخری عشرے کی ہے کے جب یہودیوں کے کمال کے تھینک ٹینکز اور چوٹی کے دماغوں نے باہم ملکر ایک ایسی مربوط حکمت عملی تیا ر کی کہ عقل انسانی دنگ رہ جائے اور میرے جیسا اندر باہر سے ہل جائے۔ جس کے بنیادی نظریہ کی ذرا سی جھلکی دکھانا چاہتا ہوں”دنیا میں اچھے لوگو ں کی نسبت برے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لیے ان پر کامیاب حکمرانی جبر و تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے، علمی مباحثوں سے نہیں، ہر شخص اقتدار و قوت حاصل کرنے کا متمنی ہے اور اسے حاصل کرنے کے بعد ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔

ایسے لوگوں کی تعداد واقع ہی کم ہے جو سب کے اجتماعی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر قربان کرنے کے لیے رضا مند ہوں۔ اس طریقے سے انہوں نے ایک انتہا ئی خفیہ حکمت عملی تیار کر کہ اس پر عمل پیرا ہونا شروع کیا اور پھر چند دہائیوں میں ہی دنیا پر اثر انداز ہونا شروع ہو گئے بلکہ پوری دنیا ہی بدل دی اور اپنا کنٹرول حاصل کرتے گئے۔ دنیا میں فریب کاری سے لیکر افواہ سازی تک اور عیاشی فحاشی سے لیکر ڈکٹیٹرز اور جمہوریتوں تک، اخلاقی اقدار کی صفائی سے لیکر تما م وسائل پر قبضہ تک سب کے پیچھے مبہم انداز میں ایک حکمت عملی کے تحت ایک مخصوص قوم اور ٹولہ ہے۔

دنیا میں دہشت گردی پھیلانے، دنیا کو مقروض کرنے، دنیا میں جنگیں لڑانے، امن و امان تباہ کرنے، اپنی تمام مصنوعات میں اپنے خاص نشانات چھوڑنے، یہ نیا جدید رنگین بنک سسٹم متعارف کرانے، سود کو حکومتی سطح پر اپنانے، کاغذی کرنسی اور کریڈٹ کارڈ سسٹم ایجاد کرنے، پوری دنیا میں ایک نیا معاشی نظام تخلیق کرنے اور پھر اسے لاگو کرنے، مذاہب میں فرقہ پرستی کو ہوا دینے اور مذہبی تنازعات پیدا کرنے، خفیہ آپریشنز کرنے، جاسوسی کرنے، جدید عدالتی نظام بنانے رائج کروانے، جادوگری کو فروغ دینے، نیا نظام تعلیم لانے، فری میسن اور ایلومیناتی جیسی تنظیمیں بنانے، پوری دنیا کے وسائل پر قابض ہونے، پوری دنیا کی خوراک پر قبضہ جمانے، پریس اور میڈیا کو کنٹرول کرنے، برین واشنگ اور دنیا کو مذاہب سے پاک کرنے، نیا عالمی مالیاتی پروگرام دینے، مختلف ریاستوں کو قرض دینے اور اسرائیل جیسی ریاست قائم کرنے اور اسے ہر حربے سے وسعت دینے کے پیچھے وہی لوگ ہیں۔اور وہ لوگ انتہائی چالاک، شاطر، ذہین اور صاحب علم ہیں۔

Jewish

Jewish

ان تمام باتوں کو تفصیلی سمجھنے کے لیے مذکورہ کتا بچہ پڑنا اور سمجھنا ضروری ہے ”The Protocols Of The Elders Of The Zions” کے نام سے ڈھونڈو تو مل سکتا ہے۔ پڑھنے کے بعد سارا بخار اتر جائے گا اور اگر بخار نہ ہوا تو چڑھ جائے گا۔ اور سمجھ درست ہو جائے گی۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ یہ دستاویزات یہودی پروٹوکولز یا صہیونی پروٹوکولز کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں اور اسکی ہسٹری بھی کافی دلچسپ ہے۔ دراصل یہودیوں کے بڑے اعلیٰ بزگ حضرات نے آج سے تقریبا 120 سال پہلے اسے لکھا تھا۔ اور 1897 ء میں سوئزر لینڈ کے شہر ”باسل ”میں روسی خفیہ اداروں نے یہ دستاویزات انتہائی خفیہ طریقے سے حاصل کرلیں اور پھر ایک روسی ”Nilus”نامی شخص ان ڈاکومنیٹس کو کتابی شکل دے کر 1901 ء میں دنیا کے سامنے لے آیا اور پھر ایک برطانوی ”Victor E Merdson” نامی شخص نے 1906ء میں اسے انگریزی میں ترجمہ کر دیا جبکہ دونوں بعد میں مارے گئے۔

پھر یہ دستاویزات پھیل گئیں اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد خفیہ طور پر قتل کر دیے گئے۔ اور یاد رہے کہ روس میں اس کتابچے کو رکھنے والے کو سرعام گولی مارنے کا حکم تھا۔یہ تو تھی اس کتابچہ کی تھوڑی سی تعریف اور اب میں ہمارے چند روایتی مذہبی و دینی بھڑک باز مولوی حضرات کو آئینہ دکھانے کے لیے تھوڑ ی اور تفصیل میں جانا چاہتا ہوں کہ اتنا کافی نہیں۔ تو سنیے اس سازش کے بعد پوری دنیا میں موجود یہودیوں اور صہیونیوں کو اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے قائل کیا گیا اور پھر آمادہ کر لیا گیا۔ اور پھر رفتہ رفتہ دماغ سن کر دینے والے اس منصوبے کو کامیاب بنا کر پوری دنیا کو اپنے قبضے میں کر لیا گیا۔ آج امریکہ جیسے ملک میں صرف پانچ فیصد سے بھی کم یہودی بستے ہیں جبکہ کوئی فرد اس وقت تک امریکی صدر نہیں بن سکتا جب تک اسے یہودیوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ اسی طرح آج پوری دنیا آئی ایم ایف اور ولڈر بنک جیسے عالمی اداروں کی محتاج ہو چکی۔

ایسے ہی دنیا کے کل بڑے اداروں میں سے 85 ادارے امریکہ کے پاس ہیں جب کہ ان میں سے 54 پر یہودی مسلط ہیں۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج کے روپ میں وال اسٹریٹ جیسا ادارہ کہ جس کے ہاتھ میں دنیا کی 80 فیصد دولت ہے یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔پوری دنیا کے میڈیا کو ہی لے لو دنیا کا 98 فیصد پریس، پرنٹ میڈیا بلواسطہ یا بلا واسطہ یہودیوں کے قبضہ میں ہے اور وائٹ ہائو س پر یہودی کنٹرول بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، امریکہ کی 30 بڑی انشورنس کمپنیوں میں سے 28 یہودیوں کی ہیں،اس وقت ہالی وڈ میں کام کرنے والی 72 فیصد فلم ساز کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں،دنیا کی سب سے بڑی 102 امریکی یونیورسٹیوں میں سے 72 یہودیوں کے پاس ہیں ماہرین کے مطابق اگر دنیا کی دس بڑی پالیمینٹوں میں یہودی ارکان کی تعداد 1000 ہو جائے تو وہ دنیا کے 70 فیصد وسائل کے مالک بن جائیں گے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اسلحہ منڈی یہودی چلا رہے ہیں۔

پوری دنیا میں 70 فیصد دواساز کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ پوری دنیا کی بنکوں میں پڑی رقم کا9 فیصد اسرائیل کی ملکیت ہے، پچھلے 40برس میں سائنس میں سب سے زیادہ نوبل پرائز یہودیوں نے حاصل کیے،اس وقت دنیا کی 111 سب سے بڑی کمپنیوں میں سے 99یہودیوں کی ہیں اور 2007ء کے اعدادو شمار کے مطابق پوری اسلامی دنیا میں 30,000 ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں، ان میں سے 21,000 ملٹی نیشنل کمپنیاں یہودیوں کی ہیں اور کمپنیاں ایسی کہ ان میں سے صرف 2 کمپنیاں سال میں اتنی رقم کمالیتی ہیں کہ اتنی پوری مسلم دنیا تیل بیچ کر نہیں کما پاتی،میں کہاں تک سنائوں تم کہاں تک سنوگے؟ مختصر یہ کہ پوری دنیا پر یہودی قبضہ کر چکے اور مسلسل کر رہے ہیں۔ اور ہمارے یہ کم ظرف ، جہالت کے سمندر میں ڈبکیاں لگانے والے اور یونہی جو ش خطابت میں بیٹھے ہوئے آدھ آدھ فٹ اچھل کر بڑھکیں مارنے والے مولوی حضرات کہ جن کی کل اوقات ایک پلیٹ حلوہ اور دو نان ہو اور باتیں سن لو جہاد کی اور اسرائیل فتح کر نے کی۔

اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبا ل نے بہت پہلے فرمایا کہ کہ” دین کافر’ فکر و تدبیر، جہاد، دین ملا فی سبیل اللہ فساد” خود سائیکل تک نہیں بنا سکتے اور ٹیلی وژن اور لائوڈ اسپیکر پہ فتوے دیدے اور جا کر دیکھ لو خود ان کی اپنی مسجد میں لگا اے سی ”Made in America” ہو گا کہ فتوے دینے کے سوا کونسا ہنر آتا ہے تم کو؟ مجھے بتائو تو سہی کہ پچھلے 500 سال میں تم میں سے کسی نے کوئی نوبل پرائز حاصل کیا؟ تم نے کتنی یونیورسٹیاں قائم کیں؟ کتنے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، اینجینئرز، سکالرز پیدا کیے ؟تم تو خود ایک گھڑی بلکہ ایک سوئی نہیں بنا سکتے اور باتیں کرتے ہو ایک متحدہ اسلامی ریاست کی اور اسرائیل سے جنگ عظیم لڑنے اور جیتنے کی، مقصد تحریر یہ کہ عقل کو ہاتھ مارو، صرف نعرے نہ مارو کہ مرنے کے لیے بھی زہر کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ بھی تمبنا نہیں سکتے۔ اسرائیل فتح کر لیا، امریکہ کو مزا چکھا لیا، کشمیر آزاد کرا لیا، ولڈ پاور بن گئے اور پتہ نہیں کیا کیا ۔۔!اقبال نے تمہارے جیسوں کے لیے ہی کہا تھا کہ” مرنے کی ہو تڑپ تو پہلے پیکر خاکی میں جاں پید ا کرے”یہ اکیسویں صدی جا رہی ہے، اپنی یہ زنگ آلود اور موٹی سوچ تبدیل کرو، اور پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرو اور عقل کو ہاتھ مارو۔

Mohammad Wasim Tarar

Mohammad Wasim Tarar

تحریر : محمد وسیم تارڑ