عالمی حکمران صحافیوں کے قتل کا نوٹس لیں

United Nations

United Nations

18 جولائی 2013ء پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے اہم ادارے سکیورٹی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے چار صحافیوں نے مطالبہ کیاکہ عالمی حکمران دنیا میں صحافیوں کی ہلاکتوں کا نوٹس لیں اور اُن کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ سکیورٹی کونسل کی جانب سے پہلی مرتبہ منتخب صحافیوں کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ کونسل کو صحافتی مشکلات کے حوالے سے معلومات فراہم کریں۔ اس میٹنگ کا اہتمام امریکا کی جانب سے کیا گیا تھا جو اس ماہ سکیورٹی کونسل کی صدارت کر رہا ہے۔ اس میٹنگ میں چار صحافیوں کے علاہ پچاس مختلف ملکوں کے نمائندوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس اجلاس کا باقاعدہ افتتاح اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل جان ایلیاسن نے اپنی افتتاحی تقریر سے کیا انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دہائی کے دوران 600 صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاک کیا گیا اور پچھلے ایک سال میں 41 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔صحافیوں کی ہلاکتوں میں ملوث 90 فیصد افراد سزا سے بچ جاتے ہیں۔ صحافیوں نے اپنے خطاب میں عالمی سطح پر اس شعبے کو درپیش مشکلات کا احاطہ کیا اور عالمی ادارے سے مطالبہ کیاکہ صحافیوں کی زندگیوں کو بھی سفارتکاروں کی طرح محفوظ بنایا جائے۔

اُن چار صحافیوں میں امریکی براڈ کاسٹنگ ادارے نیشنل براڈسٹنگ کارپوریشن (NBC)سے وابستہ رچرڈ اینگل بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ متنازعہ حالات کے شکار ممالک میں صحافیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رچرڈ اینگل نے سلامتی کونسل سے کہا کہ تنازعات اور سیاسی عدم استحکام والے ملکوں میں صحافی ساتھیوں کو بلاگز، بے مصرف گھومنے والوں کے علاوہ کیمرے تھامے ہوئے باغیوں کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیشہ ور صحافیوں کا قطعااحترام نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل کو دی جانے والی خصوصی بریفنگ کے دوران رچرڈ اینگل نے سفارتکاروں کو بتایا کہ پروفیشنل صحافیوں کو باضابطہ طور تسلیم کیا جائے۔

اور ان کو وہی اسٹیٹس دیا جائے جو سفارتکاروں کو مہیا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ صحافتی ذمہ داریاں اداکرنے کے لئے تحفظ بہت ضروری ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ رچرڈ اینگل کو شورش زدہ ملک شام میں دسمبر 2012ء میں حکومت کے حامی مسلح افراد نے پانچ دن تک اغوا کئے رکھا تھا۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر کیتھلین کیرل نے کہا ہے کہ رپورٹرز متنازعہ علاقوں میں عوام الناس کی آنکھ کا کردار ادا کرتے ہیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام الناس کی آنکھوں کو طاقتور افراد جب چاہے نکال دیتے ہیں اور اُس سے بھی زیادہ دکھ کی بات کہ اُن کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔

Journalism

Journalism

دنیا میں حکمران طبقہ سیاہ و سفید کامالک ہے جسے ہر قسم کے جرائم بھی معاف ہیں۔ لیکن صحافی کو بڑی آسانی کے ساتھ مجرم قرار دئیے اور سزا سنائے بغیر تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے حکمرانوں کو زرد صحافت تو نظر آتی ہے لیکن پیلی اور کالی کینسر زدہ سیاست نظر نہیں آتی۔ صحافی تو سوتے جاگتے پریشان رہتے ہیں کہ اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں یعنی زرد صحافت کے علمداروں کا صفایا کس طرح کیا جائے۔ جن کی وجہ سے آج ہم ا پنے آپ کو صحافی کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔

راقم نے کچھ عرصہ قبل چندولال بوٹی کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں زرد صحافت کی پرزور مذمت کی تھی۔ مطلب کہ صحافی برادری کو اس بات کا احساس ہے کہ کچھ لوگ صحافت کے نام پراپنی دکان داری چمکاتے ہیں،ٰ یہ صحافی نما دکاندار صرف صحافت کے نام پرہی نہیں بلکہ پوری قوم کے نام پر بدنما دھبہ ہیں۔ لیکن مجھے یہ بات کہنے میں ذرہ برابر بھی خوف نہیں کہ زرد صحافت کو فروغ دینے میں بھی کرپٹ سیاست دانوں اور جرائم پیشہ عناصر کا ہی ہاتھ ہے۔ آپ جس جگہ بھی رہتے ہیں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو راقم کی بات کا ثبوت مل جائے گا۔

جہاں بھی کوئی زرد صحاف کا علمدار موجود ہے اسے کسی نہ کسی بڑے سیاست دان یا جرائم پیشہ افراد کی پشت پنائی حاصل ہوگی یا رشتہ داری ہوگی، یہ صحافت کے خلاف سیاستدانوں کی سوچی سمجھی سازش ہے کہ حق اور سچ بیان کرنے والے صحافیوں کو کمزور سے کمزورتر کیا جائے اور نام نہاد بکائو زرد صحافت کو فروغ دینے کے لیے ٹائوٹ قسم کے لوگوں کی شعبہ صحافت میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کروا کران کی مالی ماونت کی جائے تاکہ حکمران طبقے کی کرپشن ،جھوٹ اور ہٹ درمی کا پردہ فاشکرنے والے کم اور ان کی جھوٹی تعریف اور کرپشن چھپانے والے ٹائوٹ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے۔

Media

Media

میں ایسے لوگوں کو صحافی نہیں مانتا جو چند ٹکوں کی خاطر حق چھپاتے ہیں ایسے لوگ جسم بیچنے والی طوائف سے بھی برے ہیں کیونکہ وہ تو صرف اپنا جسم بیچتی ہے وہ بھی مہنگے داموں، لیکن یہ بدبخت لوگ صرف دو سیر آٹے اور چائے کے کپ کے لیے قلم کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنا بلکہ ملک قوم کا وقار بھی تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ بدعنوان ثابت ہوکر بھی یہ لوگ معتبر اور باعزت طریقے سے میڈیا میں نہ صرف موجودہیں بلکہ بڑا مقام رکھتے ہیں۔ نا صرف حکومت بلکہ صحافی برادری کا بھی فرض بنتا ہے۔

کہ زرد صحافت کرنے والے نام نہاد صحافیوں کی پیداوار کو روکتے ہوئے صحافت کو پاک صاف ،حق وسچ پرمبنی بنانے کے لے اپنا کردار ادا کریں۔ زرد صحافت کواگر صحافت کا کینسر یعنی جان لیوا بیماری کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ کسی بھی بیماری کااعلاج تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک صٰحح طریقے سے اس کی تشخیص نہ کی جائے، یعنی اس کی بنیادی وجوحات کا پتہ نہ چلایا جائے۔ میری نظر میں زرد صحافت کی بنیادی وجوحات میں سیاست دانوں کا اپنی کرپشن چھپانے اور سستی تشہیر کا شوق پورا کرنے کی غرض سے نااہل لوگوں کو صحافتی حلقوں میں شامل کرناہے۔

آج جبکہ زرد صحافت بہت ترقی کرچکی ہے پھر بھی حق اور سچ پرمبنی صحافت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ جس کا ثبوت آپ کو آئے روز اخبارات اور نیوز چینلز پر حکمرانوں کی کرپشن اُوپن ہونے کی صورت میں ملتا رہتا ہے۔ عوام کسی بھی صحافی یا اینکر پرسن کو جلدی سے بکائو کہنے والوں کی بات مان لیتے ہیں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ صحافیوں کی بھی سو مجبوریاں ہوسکتی ہیں، ایک صحافی کو ایسا سچ بولنے پر جس میں کسی حکمران یا طاقتور سیاستدان یاپھر جرائم پیشہ عناصر کی کرپشن دھوکہ ۔دہی یا جھوٹ کاپردہ فاش ہوتا ہو جان تک سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں

صحافی کو قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ گاجر مولی کا ٹ دینا۔ دنیا میں کوئی ایسا قانون نہیں جو صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے۔ قارئین محترم صحافی طبقہ آج کے ترقی یافتہ دورمیں بھی دور جہالت کی طرح معتبر ہونے کے باوجود مظلوم ترین طبقہ ہے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں صحافتی مشکلات کا حل نکالنے کے لئے صحافیوں سے مشاورت کی گئی ہے جو یقینا آنے والے دنوں میں مثبت پیش روفت ثابت ہوگی۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر
imtiazali470@gmail.com.03154174470