آئی جی اسلام آباد کی بہو کے قتل کا مقدمہ درج

Islamabad Police

Islamabad Police

اسلام آباد (جیوڈیسک) آئی جی پولیس اسلام آباد بنی امین کی بہو کے قتل کی ایف آئی آر یونیورسٹی ٹاون تھانہ پشاور میں درج کر لی گئی۔ پولیس نے مقتولہ کے بھائی اور بھاوج کو گرفتار کرلیا۔ آئی جی اسلام آباد بنی امین کی بہو 19 مئی کو اپنے میکے میں پراسرار حالت میں مردہ پائی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ کے حکم پر مقتولہ کی والدہ کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں مقتولہ کے والد دریا خان، بھائی خالد اور بھابی کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس سے قبل آئی جی اسلام آباد کی بہو کے پراسرار کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے پر اثر انداز ہوکر شواہد ضائع کرنے کی کوشش کی گئی۔

آئی جی خیبر پختونخواہ نے بھی ایف آئی آر درج نہ کر کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی ہوگی۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئی جی اسلام آباد کی بہو کے پراسرار قتل کے مقدمے سے متعلق سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز چودھری نے استفسار کیا کہ رپورٹ کے مطابق مرنے والی لڑکی کی موت طبی نہیں تھی۔

کیا یہ بات ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کافی نہیں تھی؟۔ اس پر جواب دیتے ہوئے وکیل آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ وحیدہ کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس جج نہیں۔ پولیس کو ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کا حق نہیں۔ 19 مئی کی ایف آئی آر 10 جولائی کو درج کی گئی۔

مقدمے میں اثر انداز ہونے کا مقصد شواہد کا ضائع کرنا ہے۔ بنچ نے خیبر پختونخواہ حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ نئی حکومت نے اب تک کیا کاروائی عمل میں لائی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا خیبر پختونخواہ حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ وکیل آئی جی خیبر پختونخواہ لطیف آفریدی نے کہا کہ آپ پولیس کا مورال ڈائون کر رہے ہیں۔

پولیس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ شواہد ضائع ہوں۔ آئی جی اسلام آباد بنی امین نے عدالت میں پیش ہو کر موقف اختیار کیا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا۔ میری عزت سربازار نیلام ہوئی۔ میں نے محرر سے لیکر آئی جی تک ہاتھ جوڑے کہ ایف آئی آر درج کریں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی خیبر پختونخوا کی کیا جرات تھی کہ آپ کی بات نہ مانتے۔

جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ ریکارڈ پر آپ کی جانب سے کوئی درخواست نہیں آئی۔ آئی جی خیبر پختونخوا نے بھی اس موقع پر آئی جی اسلام آباد کی حمایت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی ہوگی۔ مقدمے کی سماعت جاری ہے۔