معاشرہ ، میڈیا اور آزادی اظہارِ رائے

Media

Media

کسی بھی جمہوری ملک کے بنیادی اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول آزادی اظہارِ رائے ہے۔ یہ آزادی اظہارِ رائے کیا ہے؟ اس کی ایک مختصر سی تعریف یہ ہے کہ کسی بھی فردِ واحد کی وہ آزادی جس میں وہ بغیر کسی دبائو کے اپنی رائے کا اظہار کر سکے۔یعنی ایک فرد خواہ وہ کسی بھی مہذب، طبقے یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اس کو اپنے رہن سہن ، اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق اور اپنے مہذہبی فرائض آزادانہ سر انجا م دینے اور اپنی سوچ کا پرچار کرنے کی مکمل آزادی ہے بشرط ہے کہ اسکے کسی فعل سے کسی دوسرے فرد کی دلِ آزاری یا معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ اسلام میں بھی معاشرے میں رہنے والے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی رنگ ، نسل یا زبان کا ہو اس کو ان تمام چیزوں کا حق دیا گیا ہے۔

پاکستان بھی ایک جمہوری ملک ہے جس میں تقریبا ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگ رہتے ہیں اور اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے ہیں ۔ ایک جمہوری مملکت ہونے کی وجہ سے جیسے پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کو آزادی اظہارِ رائے کا حق حاصل ہے ویسے ہی پاکستان میں میڈیا کو بھی آزادیِ اظہارِ رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ میڈیا کامعاشرے سے بڑا گہرا تعلق ہے اس کو معاشرے کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ معاشرے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور آج کے دور میں میڈیا ایک شوشل ایجنٹ کا اہم کرداربھی ادا کر رہا ہے۔

اس بات میں قطعی دو رائے نہیں کے میڈیا نے ہر محاذ پر اپنا فرض بخوبی سر انجام دیا ، پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے بعد میڈیا نے ایسے کئی حقائق سے پردہ اٹھایا جن سے لوگ پہلے بے خبر تھے۔ لوگوں کے اذہان کی تعمیر میں مدد فراہم کی، دودھ میں ملاوٹ سے لے کر بڑے بڑے سیاستدان اور سرمایا داروں اور وڈیروں کے خلاف آواز اٹھائی ۔زلزلہ ہو یا قحط سالی میڈیانے حکمران اور عوام دونوں کی توجہ اسی جانب موڑ دی ۔ کئی اہم ترین کرپشن مقدمات اور جن میں حج کرپشن کیس اور رینٹل پاور کیس ، پاکستان اسٹیل مِل میں ٢٦ ارب کا دھوکہ جیسے مقدمات کا میڈیا کی جانب سے انکشاف قابلِ ذکر ہے۔میڈیا نے ہی معاشرے میں رہنے والے لوگوں کو معاشرے میں ہونے والے ظلم اور ناانصافی سے آگاہ کیا جس کی وجہ سے عوام میں شعور بیدار ہوا اور ان میں اس ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ اس بات کا ثبوت شاہ زیب قتل کا مقدمہ ہے۔

جس کو کسی جاگیردار کے بیٹے نے اپنی ہی بہن کی عزت بچانے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتاردیا تھا معاشرے میں ہوتے والے اس ظلم کے خلاف میڈیا نے اپنی آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں عوام کا بھر پور ردِ عمل سامنے آیا اور اس جاگیردار کے بیٹے کو اس کے عمل کی سزا ملی ۔عدالت نے جتنے بھی سوموٹو ایکشن لئے و ہ میڈیا کی ہی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میڈیا کی آزادی نے جمہوریت میں چار چاند لگادیئے ۔مگر میڈیا نے جہاں اپنے اس حق کا بخوبی استعمال کیا وہیں ایسی بہت سی غیر ذمہ دارانہ کوتاہیوں کا ارتکاب کردیا جن سے اس معاشرے میں بگاڑ کا ایک خلاء پیدا ہوتا چلا گیاکیونکہ آج کے دور میں Mass Media شوشلائزنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو لوگوں کے ازہان کو Reshapeکرتا ہے۔ میڈیا کی اس آزادی اظہارِ رائے کے بے جا استعمال نے جہاں پاکستان اور پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی،قوم پرستی ، خود غرضی اور بے حسی جیسی بیماریوں میں مبتلا کردیا وہیں اس کے اثرات نے بچوں اور نوجوانوں کی سوچ کو بھی بری طرح متاثر کیااور پورے معاشرے کو Stereo typeکردیاہے۔

آج میڈیا پر سب سے زیادہ نشر ہونے والی نشریات کرائم شوز ہیں اور ان کو نشر بھی پرائم ٹائمز میں کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کرائم شوز کو دیکھ سکیں جس کی وجہ سے Voilenceکا عنصر معاشرے میں تیزی سے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ میڈیا نے ایسی معلومات جو معاشرے کا حصہ ہی نہیں تھیں ان کو لوگوں میں اتنا پھیلانا شروع کیا کہ لوگوں نے اس کو Adpotکرنا شروع کردیا جس سے پاکستان کے کلچر کو کافی حد تک نقصان پہنچا۔ پاکستانی ڈراموں نے صرف خاندانی جھگڑوں پر توجہ مرکوز کردی اور اس کے نتیجے میں لوگوںکے اندر شک کے پہلو نے جنم لیاجس نے Joint family system کو شدید نقصان پہنچایااور معاشرے کا Family Instituionکمزو رہوتا چلاگیا ہوگیا۔

میڈیا کے اسی قابلِ مذمت اور غیر منصفانہ رویے نے لوگوں کے دِلوں سے انسانیت کے احساس کو ختم کرکے قومیت اور فرقہ پرستی کی روش کو جنم دیا ۔ اب اگر کہیں سندھی مر جاتا ہے تو صرف سندھی ہی اس کیلئے انصاف کے حق میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اگر مہاجر ، پنجابی یا پٹھان کی ناحق موت ہوجاتی ہے تو اسی کی قومیت کے لوگوں پر اس کے لئے انصاف مانگنا فرض ہوتا ہے اور یہی حال تمام مسالک کا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ جو فلسفہ آزادی اظہارِ رائے مغرب سے لیا گیا ہے وہاں بھی اس کی حدود و تعین کا خیال رکھا جاتا ہے اور احتیاط برتی جاتی ہے کہ میڈیا کے ذریعے کوئی ایسی خبر ، غیر اخلاقی بات یا ایسی معلومات جو معاشرے یا ریاست کیلئے بگاڑ کا باعث بنے وہ نشر نہ ہوں۔ اس کی مثال لندن میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ایک ١٥٠ سالہ اخبار پرلندن کی حکومت نے افواج کے خلاف ایک آرٹیکل شائع کرنے پر پابندی لگادی۔

Society

Society

انڈیا جو کہ خود کو ایک سیکولر اسٹیٹ کہتا ہے اس کا میڈیا ہندواِزم کو فروغ دیتا ہے اور اپنی حکومت یا افواج کے معاملے کوئی خبر شائع کرنے میں بہت احتیاط کرتا ہے۔ امریکہ میں کئی تحقیقات میڈیا کے اثرات کی مد میں ہو چکی ہیں جس کے بعد امریکہ کی سابقہ اور موجودہ حکومت نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پالسیوں پر نظرِ ثانی کی اور اس بات کو یقینی بنایا کے عوام کے درمیان کوئی انتشار پھیلانے والی معلومات یا مواد نہ جائے جس سے معاشرے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ کئی ایسے ممالک ہیں جہاں میڈیا نے اپنی Social Responsiblity کونہ صرف پالیسی کاحصہ بنایا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا نے عوام کی رسائی ہر اس معلومات تک ممکن بنادی جس سے معاشرے میں عدم تحفظ، انتشار اور بے راروی پھیلتی چلی گئی۔

پرنٹ میڈیا ہو یا الیکڑانک میڈیا ہر کوئی ریٹنگ کی دوڑ میں آگے جانا چاہتا ہے اور ہر کسی نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے پالیسی ترتیب دی ہوئی ہے سوائے چند ایک اداروں کے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک مشہور صحافی اور اینکر پرسن پر قاتلانہ حملہ ہونے کہ بعد ان کے ادارے نے پاکستان کے دو بڑے اور اہم ترین اداروں آئی ایس آئی اور افواجِ پاکستان کے خلاف نشریات چلانی شروع کردی محض اس لئے کہ ان کو فوج اور آئی ایس آئی پر تحفظات تھے ۔ وہ نشریات ٨ گھنٹے تک چلائی گئی۔ ان حضرت کی جان بچ گئی اور وہ صحت یاب ہوکر پاکستان سے کوچ کر گئے جو ان کے تحفظات تھے وہ بے بنیاد تھے اور ایسے شواہد نہیں مل سکے جس میں فوج یا آئی ایس آئی کے ملوث ہونے امکانات بھی ہوںمگر ان ٨ گھنٹوں کی نشریات نے ریاست کی سالمیت پر جو قاتلانہ حملہ کیا وہ ناقابلِ تلافی ہے۔

اس سے نہ صرف پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی بلکہ اس کا بھر پور فائدہ پاکستان مخالف ممالک نے بھی اٹھایا ۔ مہران بیس پر حملہ کی براہِ راست نشریات بھی ایک نہایت احمقانہ فعل تھا جس نے پوری دنیا کو یہ تاثر دیا کے پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کتنی کمزور ہے اور پاکستان کا کتنامالی نقصان ہواہے۔اسی طرح راولپنڈی کاشرمناک واقعہ جہاں دو مسالک کے درمیان ہونے والی کشیدگی کو میڈیا نے اتنی زیادہ ہوا دی کہ اس کشیدگی کی لہر پورے پاکستان میں پھیل گئی اور اس کے ردِ عمل میں کئی مساجدو امام بارگاہوں کو نظرِ آتش کردیا گیا اور پوری مسلم امہ کو شرمسار کیا۔یہ وہ چندافسوسناک حادثات ہیں جو میڈیا کی ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے رونماء ہوئے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی غیر اخلاقی فعل یا جنسی زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں ان کو ڈرامائی انداز میں دوبارہ نشر کیا جاتا ہے اور رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے جو بچوں اور نوجوان نسل کے لئے انتہائی مضر ہیں اور ان کے روشن مستقبل کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ایسی کئی غیرذمہ دارانہ روایتیں قائم کرنے میں پاکستانی میڈیا سرِ فہرست رہا ہے۔

آزادیِ اظہاررائے کا حق نہ صرف میڈیا بلکہ معاشرے میں رہنے والے ہر شخص کو حاصل ہونا چاہئے مگر ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس ہونا بھی لازم ہے ۔دورِ حاضر میں میڈیا ریاست کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ لوگوں کی ذہن سازی کرنے کا سب سے موثر اور مضبوط ذریعہ ہے لحاظہ میڈیا کا ملک کی فلاح و بہبود اور معاشرے کی تکمیل کیلئے ایک مثالی کردار اداکرنا سب سے اہم فرض ہونا چاہئے ایسے چینلنز یا اخبارات جن سے ماضی میں کو تاہیاں ہوتی رہی ہیں ان کو اپنی پالیسیوں پر گہری نظرِ ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Pakistan

Pakistan

میڈیا کی آزادی اظہارِ رائے سے کسی کو کہیں اختلاف نہیں مگر اس کے ساتھ ایک حد کا تعین بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں رہنے والے وہ تمام طبقات جن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے ان کااور ان کے حقوق کا احترام کرنا میڈیا کی اہم ذمہ داری ہے تاکہ معاشرے میں نفرت اور شدت پسندی کی جو فضاء قائم ہوتی جارہی ہے اس پر قابو پایا جاسکے یہی پاکستان اور پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے حق میں بہترین اقدام ثابت ہوگا۔

تحریر:رضا حیدر نقوی