کیا آپ بھی جھوٹ بولتے ہیں؟

Lying

Lying

صحن میں بیٹھی خورشید بیگم سر پر کس کر دوپٹہ باندھے سبزی کاٹنے میں محو تھیں، اس کے ساتھ ہی انہیں یاد آیا کہ انہوں نے دو گھنٹے پہلے بیٹے کو دوائی لینے بھیجا تھا، اب وہ اپنی بیٹی نائلہ کو آوازیں لگا رہی تھیں کہ نبیل کو فون ملا دو، پتہ نہیں کدھر رہ گیا ہے یہ لڑکا، نائلہ نے بھائی کا نمبر ملا کر فون امی کو تھما دیا تھا، اب خورشید بیگم بیٹے کو ڈانٹ پلانے میں مصروف تھیں جسے انہوں نے دوائی لینے بھیجا تھا مگر ابھی تک اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا، نائلہ ماں کے ساتھ بیٹھی بھائی کو پڑنے والی ڈانٹ چسکے لے لے کر سن رہی تھی، تمہیں دوائی لینے بھیجا تھاکدھر رہ گئے ہو؟ کب تک آؤ گے ٹائم دیکھا ہے؟ کتنی مرتبہ سمجھایا ہے جس کام بھیجا کروں جلدی آ جایا کرو مگر تمہیں میری کسی بات کاکوئی اثر نہیں ہوتا،آگے سے ایک ہی جواب آیا کہ بس راستے میں ہوں، ان کے گھر یہ ہر روز کی کہانی تھی یا شاید بہت سے گھروں کی کہا نی تھی،تین گھنٹے بعد جب وہ واپس آیا تو ڈانٹ سننے کے لیے تیار تھا، اب وہ کونے میں کھڑا اپنی امی کی ڈانٹ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہا تھا، بات بات پر جھوٹ بولنا تو تمہاری عادت بن گئی ہے ،دن میں ہزاروں جھوٹ بولتے ہو شرم بھی نہیں آتی، خورشید بیگم کی آواز پورے صحن میں گھوم رہی تھی مگر وہاں کسے پرواہ تھی۔

جھوٹ جو ایک اخلاقی اور معاشرتی برائی ہے ہمارے معاشرے کی جڑوں میں اس حد تک شامل ہوچکی ہے کہ ہمیں جھوٹ بولتے ہوتے احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، مختلف لوگ مختلف وجوہات کی وجہ سے جھوٹ بولتے ہیں، زیا دہ تر مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی نظر میں خود کو اچھا ثابت کرنے اور اپنا پہلا اچھا تاثرڈالنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں،ا کثر خواتین دوسری خواتین کے سامنے اپنی شاپنگ کی لمبی لمبی لسٹ سناکر اور اپنے مجازی خدا کی جھوٹی تعریفوں کے قصیدے سنا کراپنے بالاتر ہونے کا احساس دلا رہی ہوتی ہیں، شایدایسا کرکے ان کے دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہو، عام طور پر جھوٹ تین مقاصد کے لیے بولے جاتے ہیں، ایک جھوٹ جو ہم اپنے فائدے کے لیے بولتے ہیں ، دوسرا جو ہم کسی کو فائدہ دینے کے لیے بولتے ہیں ، تیسری قسم جس میں ہم باہمی فائدہ کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔

کئی دھائیوں سے سائیکلوجسٹ ، فلاسفرز اور محققین اس کھوج میں مصروف ہیں کہ آخر انسان جھوٹ کا سہارا کیوں اور کیسے لیتا ہے ؟ ۱۹۹۰ کی دھا ئی میں امریکہ میں اس پر ایک تھیوری لکھی گئی جس میں جھوٹ کے بہت سے پہلو اجاگر کیے گئے اور تحقیق کے بعد جو نتائج سامنے آئے وہ حیران کن تھے۔ ان نتائج کے مطابق ایک اوسط انسان ایک دن میں تقریباً ۲۰۰ مرتبہ جھوٹ بولتا ہے جن میں سے کچھ اہم اور بہت سارے غیر اہم نوعیت کے ہوتے ہیں ،اس کی مزید تصدیق ۲۰۰۲ میں ہونے والی مساچیوسیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ہوئی جس کے مطابق ایک نارمل انسان دس منٹ کی گفتگو کے مختصر دورانیہ میں بھی دو سے تین مرتبہ جھوٹ بولتا ہے۔

Lies

Lies

چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہم اس قدر جھوٹ بولنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ ہم ان معمولی باتوں کو جھوٹ گردانتے ہی نہیں ہیں، ۷۵ سے ۸۲ فیصد جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم جھوٹ سمجھتے ہی نہیں ہیں، ایک امریکی جریدے کی تحقیق کے مطابق ہم میں سے ۸۶ فیصد افراد جھوٹ بولتے ہیں ، ۷۵ فیصد اپنے دوستوں سے ،۷۳ فیصد بہن بھائیوں سے، ۶۹ فیصد اپنے شریک حیات سے بولتے ہیں، مر د اگر چھ مرتبہ جھوٹ بولتا ہے تو عورت تین مرتبہ جھوٹ بولتی ہے یعنی کہ مرد عورتوں کی نسبت دوگنا جھوٹ بولتے ہیں، ۲۰۰۲ میں امریکی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سب سے زیا دہ بولا جانے والا جھوٹ ’کچھ نہیں میں ٹھیک ہوں ‘ہے۔ کچھ ایسے جھوٹ ہیں جو مرد اور عورتیں روزمرہ کے کاموں میں اس حد تک استعمال کرتے ہیں کہ پھر وہ ان کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر وہ انہیں جھوٹ نہیں لگتے، مثال کے طور پر مرد حضرات کے زیا دہ تر بولے جانے والے جھوٹ’ نہیں کوئی مسئلہ نہیں، میں با لکل ٹھیک ہوں، موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی،کال نہیں دیکھی، نہیں یہ اتنا مہنگا تو نہیں،ٹریفک میں پھنسا ہوں،اور سب سے زیا دہ بولے جانے والا جھوٹ بس ابھی آیا، اسی طرح عورتیں بھی کچھ مخصوص جھوٹ کا سہا را لیتی ہیں مثلاً میں بالکل ٹھیک ہوں ، اوہ یہ نیا تو نہیں میرے پاس تو یہ کب سے ہے، سر میں درد ہو رہا ہے ، موبائل نہیں دیکھا، معذرت میں تمہا ری کال نہیں اٹھا سکی ، اس کے علاوہ اپنی اصل عمراور وزن چھپانا یا غلط بتانا عام سی بات ہے ۔ ہم میں سے زیادہ تر افراد اپنے سامنے والے کی باتوں کا اعتبار کرلیتے ہیں اور چہرے کے زاویوں اور جسمانی حرکات سے نہیں جان پاتے کہ دوسرا شخص مسلسل جھوٹ بول رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۲ ۷ فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ بات کرتے وقت آنکھیں نہ ملانا ، کترا کر ادھر ادھر نظریں گھمانا جھوٹ بولنے کی ایک نشانی ہے حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے ، جھوٹ بولنے والے افرادد وسرے شخص کو متاثر کرنے کے لیے ساکت بیٹھتے ہیں تاکہ ان پر شک نہ کیا جائے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں تا کہ اس با ت کا یقین کر سکیں کہ آپ ان کی بات پر یقین کر ر ہے ہیں یا نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ اصل میں ہم حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور پھر اس میں اپنی مرضی کے مطابق کہانیا ں شامل کرنے لگتے ہیں اور ایک نئی کہانی کو جنم دینے کے لیے ہم مزید جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں ، اور اپنے اوپر جھوٹ کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں آنکھوں پر نکلی پلکیں سجانے سے لے کر ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے تک ہم جھوٹ کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے جھوٹ بولنا شروع کردیتے ہیں ، اسے ہمارے معاشرے کا المیہ کہہ لیں کہ ایسے افراد جو دوسروں کو خوش رکھنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں ،لوگ انہیں ان لوگوں کی نسبت زیاد ہ پسند کرتے ہیں اور خوش اخلاق سمجھتے ہیں جو لوگ سچی اور کھری باتیں کرتے ہیں ۔ جھوٹ بولنے والے افراد ہمارے معا شرے میں زیادہ دوستا نہ سمجھے جاتے ہیں۔

آجکل بچے چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ بولتے ہیں اور اکثر والدین اس وقت بچے کو سمجھانے کی بجائے اس بات کو ہنسی میں ٹال جاتے ہیں جس سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور آخر کار اس کی یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے ،تحقیق کے مطابق دو سے تین سال کی عمر میں بچے جھوٹ بولنا سیکھ جاتے ہیں اور چھ سال کی عمر میں وہ دن میں کئی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں ،ماہرین کا خیا ل ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت بچوں میں والدین سے منتقل ہوتی ہے اور زیادہ تر بچے والدین کی مار سے بچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ بولنا ایک اخلاقی برائی ہے جو بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ جھوٹ بولنے سے دوسروں کی دلوں میں اس شخص کے لیے بے اعتباری جیسی کیفیات جنم لیتی ہیں ایسے افراد جو ہمیشہ سچ بولتے ہیں یا حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ جھوٹ جیسی برائی سے دور رہا جائے ایسے افراد کو کچھ یا د رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ انہوں نے زندگی کی قصے کہانیوں کی بنیاد سچ پر رکھی ہوتی ہے، جس معاشرے میں جھوٹ حد سے زیادہ شامل ہوجائے اس معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اپنا موازنہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارا شمار بھی معاشرے کے ان لوگوں میں تو نہیں ہوتا جو ہر بات میں عادتاً یا جان بوجھ کر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

Seham Anwar

Seham Anwar

تحریر: سیہام انور ریاض