اسلامک اسٹیٹ کو قابو کرنے میں امریکی تعاون درکار نہیں، طالبان

Taliban

Taliban

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی فوجی انخلا کے بعد امریکا اور افغانستان کے نئے حکمران طبقے کی اولین ملاقات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئی ہے۔ ان دو روزہ مذاکرات میں امریکی مذاکراتی ٹیم میں مختلف حکومتی اداروں کے سینیئر اہلکار شامل ہیں۔

طالبان کے ساتھ طویل مذاکراتی عمل میں شریک زلمے خلیل زاد موجودہ امریکی ٹیم میں شامل نہیں۔ امریکی مذاکراتی ٹیم میں امریکی وزارت خارجہ، امریکی امداد کے ادارے یُو ایس ایڈ اور خفیہ ایجنسیوں کے افراد شامل تھے۔ امریکی وزارت خارجہ کے نائب خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ اور یو ایس ایڈ کی اہلکار سارا چارلس اس وفد میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔

بات چیت میں اطراف نے انتہاپسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کو کنٹرول کرنا موجودہ افغان حکومت کا ایک اہم مسئلہ قرار دیا۔ اس ملاقات میں افغانستان میں موجود غیر ملکیوں کے انخلا کو بھی گفتگو کا حصہ بنایا گیا ہے۔ طالبان نے غیر ملکیوں کے انخلا میں لچکدار رویہ اپنانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

طالبان نے ہفتہ نو اکتوبر کو امریکی وفد سے ملاقات سے قبل واضح کیا کہ میٹنگ میں امریکی وفد پر واضح کیا جائے گا کہ جہادی گروپ دولتِ اسلامیہ (اسلامک اسٹیٹ) کو کنٹرول کرنے کا معاملہ وہ خود حل کریں گے۔

اس مناسبت سے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت دولت اسلامیہ کو کنٹرول کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

طالبان حکومت کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شمالی افغان شہر قندوز میں واقع ایک شیعہ مسجد کے نمازیوں پر آٹھ اکتوبر بروز جمعہ کیے گئے ایک خود کش حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس خودکش حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

دوحہ میٹنگ میں شریک طالبان کے نمائندہ وفد کے سربراہ عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ملک کے منجمد اثاثے فوری طور پر بحال کرے تا کہ ان کے استعمال سے ملک اور عوام کی معاشی حالت کو بہتر کیا جا سکے۔ افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کا بیان قطر میں قائم عرب ٹیلی وژن الجزیرہ نے نشر کیا۔

افغانستان پر قائم طالبان کی حکومت کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے یہ بھی بتایا کہ امریکا نے کابل حکومت کو کورونا ویکسین فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یہ بات امیر خان متقی نے ملاقات کے بعد الجزیرہ کے نمائندے کو بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ فریقین نے میٹنگ میں دونوں ملکوں کے تعلقات کا نیا باب شروع کرنے پر بھی فوکس کیا۔

قبل ازیں امریکا سے روانگی پر امریکی حکام نے افغانستان کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں بہتری لانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ امریکی وفد نے ایسا بھی کہا تھا کہ وہ طالبان حکومت کے نمائندوں کو عوام کی بہتری کے اقدامات کو ترجیحی بنیاد پر کرنے کا بھی کہیں گے۔ یہ بھی اہم ہے کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر طالبان حکومت کو امداد دینے کے معاملے پر بظاہرکسی ایک نکتے پر متفق دکھائی نہیں ہیں۔