’انسان اتنی ذلت و حقارت کیسے برداشت کر سکتا ہے‘

Refugees

Refugees

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک مطالعاتی رپورٹ میں شمالی فرانس میں پولیس پر پناہ گزینوں کو منظم طریقے سے ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس نے پناہ گزینوں کے کیمپوں کو تباہ کرکے مکینوں کو بے گھر کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کروائے گئے اس مطالعے کے مصنفین میں سے ایک میشائل بوشینیک کے مطابق فرانس میں پناہ گزینوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہیں بڑے پیمانے پر کیمپوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، انہیں مہاجر کیمپ خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس عمل میں سکیورٹی فورسز یہ کہہ کر کیمپ خالی کروا رہی ہیں کہ یہ پناہ گزین یہاں غیر قانونی طور پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ میشائل بوشینیک کے بقول،”پناہ گزینوں کے خیموں کو خالی کروانے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ خیموں میں پڑاؤ کے لیے استعمال کیے جانے والے ترپال یا سلیپنگ بیگ وغیرہ کو تباہ یا ضبط کر لیا جاتا ہے اور پناہ گزینوں کو اس کا کوئی متبادل بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو آخر کار سڑک پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ بے سرو سامان اور خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ان کی اگلی منزل پھر کوئی مہاجر کیمپ ہی بنتی ہے۔ فرانس میں ہنگامی کیمپس بھی بُری طرح بھرے ہوئے ہیں جبکہ یہاں صرف ان لوگوں کو پناہ ملتی ہے جو بہت ہی مجبور ہیں۔شمالی مقدونیہ میں درجنوں افغان اور پاکستانی پکڑے گئے

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پناہ گزین کیمپوں سے مہاجرین کا انخلا معمول کی بات ہے اور یہ بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ پولیس اہلکار اطلاع دیے بغیر یا غیر اعلانیہ طور پر کیمپوں پر چھاپہ مارتے ہیں اور مہاجرین کو کیمپ خالی کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر مہاجرین کیمپ خالی کر کے ایک یا دو میٹر کے فاصلے پر، ایک سڑک سے اُٹھ کر دوسری سڑک یا پارکنگ ایریا میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس دوران پولیس کیمپوں کی تلاشی لیتی اور تمام چیزیں ضبط کر لیتی ہے۔

فرانس کے وزیر داخلہ جیرال دارمانی نے جولائی 2021 ء میں پناہ گزینوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے پولیس کی تعیناتی کو اجاگر کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے، ”ایک سخت پولیس آپریشن کا مقصد فرانسیسی شہر کلے میں پناہ گزینوں کو چند سال پہلے کے تجربات یاد دلانا ہے۔ وہ ایک مضبوط پولیس آپریشن اور اس کی نفری کی تعیناتی تھا جو چوبیس تا اڑتالیس گھنٹوں کے وقفے سے مسلسل جاری رہا۔یورپ میں آنے والے تارکین وطن

ہیومن رائٹس واچ نے فرانسیسی سکیورٹی فورسز کے نقطہ نظر کو حکمت عملی کی ایک واضح تبدیلی قرار دیا ہے۔ ماضی میں پناہ گزینوں کے خلاف آنسو گیس کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا، اب انہیں کیمپوں سےباہر نکال کر، چلا کر ، بے دخل کر کے تھکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کی طرف سے کروائے گئے اس مطالعے کی رپورٹ کے مصنف میشائل بوشینیک کے بقول، ”یہ امر ناقابل فہم ہے کہ انسان اتنی ذلت و حقارت کیسے برداشت کر سکتا ہے۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ نے اس صورتحال کو خالصتاً ہراسانی قرار دیا ہے۔ کیمپوں کو مہاجرین یا پناہ گزینوں سے خالی کروانے کے عمل میں 15 منٹ سے زیادہ کا وقت درکار نہیں ہوتا تاہم اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی اور فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ پناہ گزینوں کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بنایا جائے۔

2020 ء میں اس تنظیم کی طرف سے 950 مہاجرین کے انخلا کے کیسز سامنے آئے تھے۔ 2016 ء تک فرانس میں کلے شہر مہاجرین کے بحران کی علامت بنا رہا۔ ایک نام نہاد جنگل میں عارضی خیموں کا شہر، جہاں دس ہزار تک انسان پناہ لیے ہوئے تھے۔ پناہ کے متلاشی بہت سے افراد کے لیے کلے برطانیہ کے راستے میں آنے والا ایک درمیانی مقام تھا اور پانچ برس بعد آج بھی اس کی یہی حیثیت ہے۔ فرانسیسی کوسٹ گارڈز کے مطابق رواں برس کے شروع کے آٹھ مہینوں کے دوران 15 ہزار چار سو مہاجرین نے کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کرنے کی کوشش کی۔ یہ تعداد گزشتہ پورے برس کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔