اسرائیل اور ترکی میں قربت، یونان پریشان کیوں ہے؟

Recep Tayyip Erdoğan

Recep Tayyip Erdoğan

یونان (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل اور ترکی ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اسرائیلی صدر گزشتہ روز یونان پہنچے ہیں تاکہ ترکی کے ساتھ آئندہ تعلقات کے حوالے سے اس خطے کے اپنے اتحادی یونان کے خدشات دور کر سکیں۔

اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ ​​جمعرات کو یونان پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کا مقصد ترکی کے حوالے سے یونان میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنا ہے۔ یونان اور ترکی علاقائی حریف ہیں اور حالیہ برسوں کے دوران ان دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اسرائیل کی فلسطینیوں کے حوالے سے پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں لیکن اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کی بعد سے اسرائیل اور ترکی کے مابین تعلقات میں پایا جانے والا تناؤ کم ہوا ہے اور توقع ہے کہ اسرائیلی صدر آئندہ ماہ ترکی کا ایک نادر دورہ کریں گے۔ اس حوالے سے یونان اور قبرص میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ اسرائیل کا کوئی بھی رشتہ اس یہودی ریاست کے اپنے بحیرہ روم کے پڑوسیوں یونان اور قبرص کے ساتھ تعلقات کو کمزور نہیں کر سکتا۔

تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز کے سینئر محقق اوڈ ایرن کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ” اسحاق ہرزوگ کو اس ملاقات میں یونانی رہنماؤں کو یقین دلانا ہو گا کہ ترکی کے ساتھ بہتر تعلقات کی قیمت کسی بھی صورت یونان کو ادا نہیں کرنی ہو گی۔‘‘

ایرن کا مزید کہنا تھا کہ ہرزوگ کو یونان میں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اسرائیل قبرص اور یونان کے ساتھ ”مشرقی بحیرہ روم کے تعاون کو بڑھانا‘‘ چاہتا ہے۔ اسرائیلی صدر آئندہ ہفتے قبرص کا دورہ بھی کریں گے۔

مسلم اکثریتی ترکی اور یہودی ریاست کے درمیان تعلقات سن 2010ء میں غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والے ترک بحری بیڑے پر اسرائیلی حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سردمہری کا شکار ہو گئے تھے۔ دوسری جانب اسرائیل اور یونان کے تعلقات گزشتہ ایک دہائی کے دوران مزید گہرے ہوئے ہیں۔

سن 2019 میں قبرص، یونان، مصر، اسرائیل، اردن، اٹلی اور فلسطینی علاقوں نے ’’مشرقی بحیرہ روم گیس فورم‘‘ بنانے پر اتفاق کیا تھا لیکن تب ترکی کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ پھر سن 2020 میں اسرائیل، یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم سے یورپ تک گیس بھیجنے کے لیے ایک بڑی پائپ لائن کے لیے ‘ایسٹ مِڈ معاہدے‘ پر دستخط کیے لیکن انقرہ حکومت کو اس پر شدید اعتراض تھا۔

دریں اثناء نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اسرائیلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ تعلقات میں بہتری یونان اور قبرص کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی قربانی پر نہیں کی جائے گی۔