مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف بھر پور جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت

Mohammad Nawaz Sharif

Mohammad Nawaz Sharif

تحریر قاضی کاشف نیاز
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے حال ہی میں آزاد جموں کشمیر کونسل سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر بڑا واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ” حسب سابق کشمیری قیادت سے مشاورت کے بعدہی بھارت سے مذاکرات کیے جائیں گے۔”

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان پردہشت گردوں کو پناہ دینے کا پروپیگنڈہ کرکے دراصل بھارت اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر اور پاکستان یک جان دوقالب ہیں۔ پاکستان اور کشمیر کی شناخت مشترکہ اور اسلامی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کے لیے عالمی برادری کے دباؤ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ بے گناہ کشمیری عوام پرکیے جانے والے مظالم کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔

لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پرحالیہ بھارتی جارحیت نے اعتماد سازی کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے اور بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیوں سے قیام امن کی کوششیں متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کہاکہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو عسکریت پسندی سے جوڑنا درست نہیں۔ دہشت گردی کاسب سے بڑا شکار پاکستان ہے۔ پاک فوج بہادری سے دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہے۔ بھارت نے سیکرٹری خارجہ مذاکرات ملتوی کرکے منفی طرزِ عمل اختیار کیا۔”

مسئلہ کشمیر پر ایک پاکستانی وزیراعظم کا ایک عرصے بعد غیر مبہم اور دوٹوک بیان کشمیری عوام کے لیے نہایت حوصلے کا باعث ہے اور انہیں احساس ہو گا کہ وہ اپنی جدوجہد میں اکیلے نہیں ۔جس طرح وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوکر اسلام و پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں’اسی طرح پاکستان بھی پوری طرح ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

حالیہ کچھ عرصہ سے بھارت نے مسئلہ کشمیر پر نہایت منفی طرزِ عمل اختیار کرلیا تھا مودی سرکار نے برسرِاقتدار آتے ہی سب سے زیادہ کشمیر کے خلاف اپنی پالیسیوں کو فوکس کر دیا۔ چندماہ قبل جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستانی اور کشمیری عوام کے جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے ہزاروں بھارتی مسلمانوں کے قاتل مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اور یوں انہوں نے عالمی سطح پر تاثر دیا کہ پاکستان فراخدلی سے بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام معاملات بہتر کرنا چاہتا ہے تو مودی نے بغیر کسی شرم کے اس تقریب کے موقع پرہی اپنے ناجائز مطالبات کی فہرست پاکستانی وزیراعظم کو پکڑانا ضروری سمجھا اور پاکستان سے اپنے خبث باطن کے اظہار میں ایک لمحے کابھی ادھارنہ کیا۔

اس تقریب کے موقع پر میاں نواز شریف نے کشمیری قیادت سے کوئی ملاقات نہ کی جس پرانہیں پاکستان کے محب وطن حلقوں سے سخت تنقید کابھی سامنا کرنا پڑا۔تاہم تھوڑے عرصے بعد جونہی پاک بھارت سیکرٹری خارجہ مذاکرات کا وقت قریب آیا تو پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے مقبوضہ جموں کشمیر کی حریت قیادت سے ملاقات اور مشاورت کی تاکہ مذاکرات سے پہلے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ یہ ملاقات کوئی انوکھی نہ تھی ‘نہ کوئی پہلی بار ہورہی تھی۔ پاکستان مذاکرات سے پہلے ہمیشہ کشمیری قیادت سے ملاقات کا اہتمام کرتا آیا ہے۔ اس پر بھارت نے پہلے کبھی کوئی اعتراض بھی نہ کیا کیونکہ پاک بھارت مذاکرات میں اصل فریق کشمیری ہیں اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے لیکن مودی حکومت چونکہ پاکستان اور کشمیر مخالف ایجنڈا لے کر سامنے آئی ہے’ اس لیے مودی نے مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے اور مذاکرات سے جان بچانے کایہ بہانہ گھڑا کہ پاکستان مذاکرات کرلے یادہشت گردوں (حریت قیادت )سے ملاقات کرلے۔ اگر پاکستان کشمیری حریت قیادت سے ملاقات کرے گا تو پھر بھارت بھی مذاکرات نہیں کرے گا۔

دراصل چور کو بھاگنے کاہمیشہ کوئی موقع چاہئے ہوتاہے۔ بھارت کایہ پرانا وطیرہ رہاہے کہ پاکستان جب بھی مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کی کوشش کرتاہے توبھارت واویلا کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے اور اسے باہمی مذاکرات سے ہی حل کیا جانا چاہئے۔ پاکستان جب پاکستانی اور کشمیری عوام کی امنگوں کے برعکس لاحاصل مذاکرات کے لیے بیٹھتاہے تو پھر بھارت ان مذاکرات سے بھی جان چھڑانا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی کہتاہے کہ پہلے اعتماد سازی کے اقدامات (Confidence Building Measures)ہونے چاہئیں۔ دوستی اورتجارت کی بات ہونی چاہئے۔ جب دوستی اور تجارت بڑھے گی تومذاکرات کاماحول بھی پیدا ہوجائے گا۔

Pakistan

Pakistan

پاکستانی حکمران پاکستانی عوام کی امنگوں کے برعکس بھارت کایہ ناجائزمطالبہ بھی جب مان لیتے ہیں ‘ دوستی بس اورتجارتی کارواں چل پڑتے ہیں توپھر بھارت نیا واویلا شروع کردیتاہے کہ پاکستان کشمیر میں دراندازی کر رہا ہے۔ پاکستان پہلے دہشت گردی کو روکے’ پھر مذاکرات ہوں گے لیکن عالمی سطح پر اس کے یہ سارے بہانے کو ئی حقیقت نہیں رکھتے’ اس لیے مودی سرکار نے مذاکرات سے سرے سے ہی جان چھڑانے کایہ طریقہ نکالا ہے کہ پاکستان کشمیری قیادت سے مشاورت جب تک نہیں چھوڑے گا’مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اب ظاہرہے پاکستان کے لیے کشمیری قیادت کوچھوڑنا کبھی ممکن نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت اگر پاکستان کی تمام تر فراخ دلانہ کوششوں کے باوجود کشمیر پر مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تو پاکستان کو بھی ایک لاحاصل مذاکرات ‘مذاکرات کا کھیل کھیلنے اور وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مسئلہ کشمیر کی گزشتہ 64 سالہ تاریخ نے ثابت کیاہے کہ بھارت کبھی مذاکرات سے ماننے والا نہیں لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانتے۔ پاکستان کو بھی اب یہ بے کار کھیل چھوڑ دینا چاہئے۔ اس کی بجائے اب وقت ہے کہ کشمیری مجاہدین کی کھل کرمدد وحمایت کی جائے اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کوزیادہ سے زیادہ اٹھایا جائے کیونکہ بھارت مسئلہ کشمیر کوخود اقوام متحدہ لے گیاتھا۔اس لیی یہ کسی طور دو طرفہ مسئلہ نہیں بلکہ عالمی طورپرمتنازعہ مسئلہ ہے۔

India

India

بھارت اگر متنازعہ خطے میں آٹھ لاکھ فوج رکھ سکتاہے تو پاکستان بھی کشمیری عوام ‘مجاہدین کی کھل کر مدد و حمایت کرسکتاہے۔ پاکستان دشمن ضدی اور متعصب بھارت صرف اسی طرح راہ راست پرآئے گا’ورنہ ہم پہلے کی طرح اب بھی وقت ضائع کرتے رہیں گے اور مودی حکومت کشمیر کے انتخابات میں جعلی طورپر اکثریت حاصل کرکے کشمیرکی خصوصی حیثیت بھی ختم کرکے اسے بھارت کا آئینی طورپر اٹوٹ انگ بنانے کا مذموم منصوبہ مکمل کرلے گی۔ اس سے پہلے پہلے پاکستان کو بھر پور جارحانہ پالیسی اختیار کرلینی چاہئے تاکہ بھارت کشمیرکے خلاف اپنے مذموم عزائم کوکسی صورت پورا نہ کرسکے۔