طلبا کی بڑی تعداد ناکام کیوں؟

Pakistan

Pakistan

تحریر:ذیشان وارث
دنیا کے تمام ممالک پہ اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جو بغیر کسی نظام کے چل رہاہے۔ یہی صورت حال شعبہ تعلیم کی ہے۔ تمام تر اشتہار بازی، غیرملکی امداد، فروغ تعلیم کے نعروں اور ہر صوبے میں علیحدہ وزارت تعلیم ہونے کے باوجود تعلیم کاشعبہ روبہ زوال ہے۔ اس حوالے سے 2014ء میں آنے والے انٹرمیڈیٹ اورمیٹرک کے بدترین نتائج چشم کشاہیں۔ پاکستان کے کسی بھی تعلیمی بورڈ کے نتائج 55 فیصد سے زیادہ نہیں ۔سب سے بڑے تعلیمی بورڈ لاہور کے انٹرمیڈیٹ کے نتائج 52.55 فیصد ہیں۔ باقی تمام بورڈ ز کے نتائج 50فیصد سے بھی کم ہیں۔

علاوہ ازیں حال ہی میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول سے محروم ”کچرے کے پھول” بنے ہوئے ہیں جبکہ 50% سکول جانے والے بچوں کے مستقبل کے آئینہ دار مندرجہ بالا تعلیمی نتائج ہیں۔ لازمی امر ہے کہ امتحانات میں ناکام ہونے والے طلبا کی اکثریت پڑھائی چھوڑ کر یا تو ورکشاپس کارخ کرتی ہے یامنفی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اسباب اور وجوہات کاجائزہ لیاجائے جن کے باعث ملک کے زیادہ تر طلبا امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں اوراس کی روشنی میں مسائل کا سدباب کیاجائے تاکہ ملک کاقیمتی سرمایہ ضائع ہونے سے بچایاجاسکے۔تحقیق کی روشنی سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ طلباکے امتحانات میں ناکامی کی وجوہات درج ذیل ہے۔
-1 نامناسب تعلیمی نظام
-2 طلبا میں شعور کی کمی
ذیل میں ہم ان وجوہات کاجائزہ لیں گے۔
-1نامناسب تعلیمی نظام

پاکستان میں گزشتہ 67 سالوں سے لارڈ میکالے کاتعلیمی نظام نافذ ہے جس کامقصد برصغیر کی اقوام کو ترقی سے روشناس کرانے کی بجائے کروڑوں کی تعداد میں ذہنی غلام پیدا کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی نوآبادیاتی نظام کے دوران مغربی ممالک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے انتہا ترقی کی جبکہ ان کے مفتوحہ علاقوں میں جہالت کادور دورہ تھا۔افسوسناک بات مگر یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی ایسا نظام تعلیم نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جوہماری آنے والی نسلوں کو استعمار کی غلامی سے نکال کر دنیاکو نئی نظر سے دیکھنے والی فکرحریت دے سکتا۔ اس کے بجائے پرانا”انگریزی برانڈ” نظام تعلیم ہی نافذ رکھاگیاجس نے صرف ”کالے یاکاٹھے انگریز” ہی پیداکیے اورآزادی کے پون صدی بعدبھی اقبال کے ”جہانِ نو” میں ہماراحصہ صفرسے بھی کم ہے۔

گزشتہ 67 سالوں میں کئی قسم کے نئے سکولنگ سسٹم وجود میں آنے کے بعد یہ فرسودہ نظام مزید ناکارہ ہو گیا اور طلبا انگلش میڈیم، کیمبرج سکول سسٹم (Oلیول، A لیول) جیسے نظاموں میں پھنس کر رہ گئے۔ گورنمنٹ سکولوں کی حالت سیاسی بھرتیوں، بلاوجہ تبادلوں اور نااہل اساتذہ کے باعث انتہائی نازک ہوچکی ہے اور یہ سرکاری سکول برے نتائج پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ طلبا کے امتحانات میں ناکام ہونے میں نظام کاکتناحصہ ہے؟ یہ بات درج ذیل نکات سے واضح ہے۔

(iانگریزی زبان : دنیاکی پانچ ہزارسالہ تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس نے دوسروں کی زبان میں تعلیم حاصل کی ہو اور ترقی کی منازل طے کی ہوں۔ پاکستان میںمیٹرک اور ایف ایس سی اورگریجویشن کی تمام کتابیں (اردو اور اسلامیات کے علاوہ)انگریزی زبان میں پڑھائی جاتی ہیں۔ انگریزی زبان سے عدم واقفیت طلباکے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے اور طلباکازیادہ وقت کتاب میں موجود Concepts کو سمجھنے کے بجائے اس کا ترجمہ کرتے گزر جاتاہے۔

(iiنااہل اساتذہ: سرکاری سکولوں کے اکثر اساتذہ نااہل ہیں جو صرف حاضری لگانے کے لیے سکول جاتے ہیں اورایک تعلیمی سال کے دوران ایک مرتبہ بھی پوری کتاب نہیں پڑھاتے جبکہ یہی اساتذہ اپنی پرائیویٹ اکیڈمیوں میں وہی کورس نہ صرف کئی دفعہ پڑھاتے ہیں بلکہ اس کے ٹیسٹ بھی لیتے ہیں۔ سرکاری سکول یاکالج میں یہ اساتذہ انتہائی فکر مندی سے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ طلبا کا کورس مکمل نہ ہوپائے تاکہ وہ اکیڈمی میں آکر کورس پورا کریں۔ اس عمل سے غریب طلبا توفیل ہوجاتے ہیں لیکن استاد صاحب کی گاڑی کاماڈل ہرسال بدل جاتاہے۔ہذا من فضل ربی

(iiiکیرئیر کونسلنگ کی کمی: ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں کیرئیر کو نسلنگ کا کوئی نظام موجود نہیں جس کے ذریعے بچے کے رجحانات کا پتہ چلا کر متعلقہ شعبہ تعلیم کی طرف اس کی راہنمائی کی جاسکے۔ (ivتعلیمی وظائف کافقدان: غریب مگرذہین بچوں کی کفالت کے لیے حکومت کی طرف سے ناکافی وظائف ان بچوں کی پڑھائی میں رکاوٹ ہیں۔ اسی سبب اکثربچے پرائمری یامڈل تک پہنچنے سے پہلے ہی ادارے کوخیرباد کہہ دیتے ہیں اور اگر کوئی تعلیم جاری رکھنا چاہے تو اسے مزدوری کرنی پڑتی ہے جس وجہ سے یہ بچے اچھے تعلیمی نتائج نہیں دے پاتے۔

Pakistan Students

Pakistan Students

(vدیہی علاقوں میں معیاری تعلیمی اداروں کی کمی: ملک کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیمی اداروں کے ناپیدہونے کے باعث ایسے علاقوں کے طلبا کی اکثریت امتحانات میں ناکام ہوجاتی ہے۔ (vi معیاری ہاسٹلز کی عدم فراہمی: پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث طلبا کوبڑے شہروں کارخ کرناپڑتاہے لیکن حکومتی سطح پر ایسے طلبا کے لیے معیاری ہاسٹلز کاخاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باعث یہ طلبا مشکلات کاشکار ہوکر پڑھائی سے دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں۔

-2طلبا میں شعورکی کمی: اگرچہ ہمارے تعلیمی نظام میں بے شمار خامیاں ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے طلبااپنی نالائقیوں اور لاپرواہیوں کے باعث بھی امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ذیل میں چندوجوہات بیان کی گئی ہیں۔ (iٹرپل ایم (Moter Bike, Mobile,Moniter) بہت سے طلبا موبائل، موٹرسائیکل اور کمپیوٹر کے بے جااستعمال کے باعث تعلیم پرتوجہ نہیں دیتے اور امتحانات میں ناکامی کامنہ دیکھتے ہیں۔

(iiغلط مضامین کاانتخاب: ہرطالب علم صرف ڈاکٹریا انجینئربننا چاہتاہے جبکہ اپنے تعلیمی رجحانات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ طلبا سائنسی مضامین میں فیل ہوتے ہیں۔ طلبا کو چاہئے کہ اپنے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے مضامین کاانتخاب کریں تاکہ ناکامی سے بچ جائیں۔ اس طرح وہ اپنے فیلڈ میں بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرسکیں گے۔ (iiiبرے دوست : کہا جاتا ہے”تخم تاثیر،صحبت کااثر”۔امتحان میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ طلبا کا بری صحبت اختیار کرنا ہے۔ ایسے طلبا فضول سرگرمیوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اورپڑھائی کے دنوں میں لسی پی کر سوئے رہتے ہیں جبکہ امتحانات سرپرآجائیں تو کبھی نیوٹن کوبرا بھلا کہتے ہیں اور کبھی آئن سٹائن ان کاہدف تنقید ہوتا ہے۔

اور جب نتائج نکلتے ہیں تو سارا الزام ممتحن کو دے دیتے ہیں کہ پیپر تو ٹھیک ہواتھا اس کی چیکنگ ٹھیک نہیں ہوئی۔ چیک کرنے والے نے فیل کر دیا۔ بقول غالب پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق تادم تحریر کوئی آدمی ہمارا بھی تھا؟ مسائل کا سدباب: مندرجہ بالاتعلیمی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی یاانتظامی سطح کاکوئی بااختیار مردعاقل ان مسائل کاادراک کرے اور ان کے حل کے لیے کوشاں ہو۔ درج ذیل اقدامات کرکے ملک کے تعلیمی معیار کو بہتر کیا جاسکتا ہے ذیل میں چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔
-1 انگریزی زبان کولازمی قرار دینا ہمارے نظام تعلیم کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تمام کتابیں انگریزی میں ہونے کے باوجود ہمارے انگریزی کے اساتذہ کوبھی انگریزی نہیں آتی۔جس کی وجہ سے ہمارے طلبا معیاری تعلیم سے بھی محروم رہتے ہیں۔ لہٰذا اردو جو کہ ہماری سرکاری زبان ہے کو ہی ذریعہ تعلیم بناناچاہئے۔

-2 تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کارکردگی کو مستقل بنیادوں پر پرکھا جانا چاہئے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اساتذہ اپنے فرائض منصبی احسن انداز میں ادا کررہے ہیں۔ -3 طلبا کے لیے تعلیمی اداروں میں کیرئیرکونسلنگ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنے رجحانات کے مطابق مضامین کا انتخاب کریں۔
-4 غریب اور مستحق طلباکے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیمی وضائف کی فراہمی کویقینی بنایا جائے۔ -5 دیہی اور پسماندہ علاقوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔تاکہ وہاں کے طلبا بھی ملکی ترقی میں اپناحصہ ڈال سکیں۔
-6 سرکاری تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور طلبا کو تعلیم دوست ماحول دیا جائے۔

طلبا کے لیے: -1 طلبا کو چاہئے کہ مضامین کا انتخاب اپنے طبعی رجحانات کے مطابق کریں۔ خاص طورپر طالبات کو کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد 50 فیصد سے زیادہ لڑکیاں گھر بیٹھ جاتی ہیں۔
-2 آج کل ہرچھوٹے بڑے کے پاس موبائل اور کمپیوٹر ہے جبکہ طلبا کے لیے یہ غیرضروری اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ۔لہٰذا طلبا کوان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔

Pakistan Students

Pakistan Students

-3 طلبا کو چاہئے کہ تعلیم کو سنجیدگی سے لینے والے طلبا کے ساتھ دوستی رکھنی چاہئے۔ برے دوست طلبا کی تعلیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں اگر تعلیمی اصلاحات کے لیے اقدامات کیے جائیں تو عین ممکن ہے کہ ہمارانظام تعلیم بہتر ہوسکے اور ہم ترقی کا راستہ اختیار کرسکیں۔

تحریر:ذیشان وارث