پانی کا بحران، سیلاب اور لوڈشیڈنگ کا عفریت اور کالا باغ ڈیم

Kala Bagh Dam

Kala Bagh Dam

تحریر:عدیل اسلم
پاکستان کا شمار ایشیاء کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو معاشی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو وہ وسائل دئیے ہیں کہ یہاں بجلی کی کمی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ لوڈشیڈنگ تو درکنار، ہمیں توانتہائی سستی بجلی بناکر ملک کی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ اسے ایکسپورٹ بھی کرنا چاہئے تھا۔آج ہم بجلی امپورٹ کررہے ہیں اور مفت میں سیلاب بھی لیکن لوڈشیڈنگ ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں زراعت کے لیے پانی کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ان غلط بیانیوں کی قیمت ہے جو پاکستان میں پچھلے بیس تیس سال سے پاکستان کے حکمران اور سیاسی حلقوں میں کی جاتی رہی ہیں۔ بدقسمتی سے اس کی قیمت عوام اداکررہے ہیں کیونکہ حکمرانوں کے لیے نہ توبجلی کی کمی ہے اور نہ ہی بجلی کے بل ان کی استعداد سے زیادہ ہیں کیونکہ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں سرکاری خرچ پرجنریٹر بجلی مہیاکردیتے ہیں جس کاخرچ ان عوام سے وصول ہوتاہے جن کے پاس اُس وقت بجلی نہیں ہوتی۔

پاکستان کو ایک عظیم دریائی نظام (دریائے سندھ اور اس کے معاونین) وراثت میں ملے جو اوسطاً سالانہ 13 کروڑ 78 لاکھ ایکڑفٹ پانی لاتاہے اور ساتھ ایک بہت بڑا آبپاشی کانظام بھی اللہ نے عطاکیا جو دنیا میں عظیم ترین مربوط نظام مانا جاتا ہے۔ اللہ نے موسم بھی ایسے عطا کیے ہیں کہ پورے سال میں زراعت کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے تھوڑی سی منصوبہ بندی اورعقلمندی کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری زراعت بہت زیادہ پیدوار رکھنے والی (Productive)نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق ہی پیداوار دینے والی (Subsistance level) کی ہے جس میں اوسطاً پورے سال کا 83 فیصد پانی( 11 کروڑ 47 لاکھ ایکڑفٹ) صرف موسم گرما میں آتاہے اور باقی چھ مہینوں میں اوسطاً صرف 17 فیصد (2 کروڑ 31 لاکھ ایکڑفٹ)پانی ہوتا ہے جبکہ موسم گرما میں زراعت کی ضرورت صرف 7 کروڑ 91 لاکھ ایکڑفٹ پانی ہے۔لہٰذا 3 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاگرتا ہے۔

علاوہ ازیں ہر سال بھارت بھی ”واٹربم” کا ”کامیاب” تجربہ پاکستان پہ کررہا ہے اور پاکستان کو آموں کے بدلے سیلاب کاتحفہ مل رہا ہے۔ موسم سرمامیں حالت مختلف ہے۔ زراعت کی ضرورت 3 کروڑ 82 لاکھ ایکڑفٹ ہوتی ہے جبکہ دریاؤں میں 2 کروڑ 31 لاکھ ایکڑ فٹ پانی میسر ہوتا ہے۔ لہٰذا پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ پانی کی اس ناہموار فراہمی سے نمٹنیکے لیے ہمیں بھی وہی راستہ اختیارکرناہوگا جو بیسیوں صدی میں 42 ہزار ڈیم بناکر مختلف ممالک نے کیا اور ترقی کرگئے۔ یہ ڈیمز بھی کچھ ایسے ہی مقاصد کے لیے بنے تھے ،جیسے آج پاکستان کی قومی ضرورت مطالبہ کررہی ہے۔کچھ صرف بجلی کی پیدوار کے لیے اور کچھ صرف پانی ذخیرہ کرنے کے لیے۔
پاکستان بھی آج سیلاب،کم پیداوار اور لوڈشیڈنگ کابری طرح سامنا کر رہا ہے۔ لہٰذا اسے بھی وہی ذریعہ استعمال میں لانا ہو گا۔

”Lieftich”کی رپورٹ میں بھی اس بات کا تذکرہ ہے کہ پاکستان کو ہردس سال میں کم ازکم ایک تربیلا سائز کا ڈیم بنانا پڑے گا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان نے پچھلی کچھ دہائیوں سے ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا۔ پاکستانی تاریخ کاسب سے متنازعہ پراجیکٹ”کالاباغ ڈیم” ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے پاکستان کوسیلاب کی چنداں فکر نہ ہوتی۔ بجلی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتااور موسم سرما میں پانی کی کمی کوبھی پوراکیاجاسکتا۔ لیکن یہ متنازعہ کیوں بنا؟ اس کے لیے ہمیں اس کے پس منظرمیں جاناپڑے گا۔

کالاباغ ڈیم: دریائے سندھ پراسلام آباد سے 100 میل جنوب مغربی سمت میں ضلع میانوالی میں تجویز کیا جانے والا ڈیم ”کالاباغ ڈیم” ہے۔ پس منظر: کالاباغ ڈیم کی تعمیرکرنے کے سروے کا آغاز 1955ء میں بین الاقوامی اداروں نے ورلڈبنک کے تعاون سے کردیاتھا۔Indus Special Study کے نام سے اس کام کا آغاز کیاگیا۔سواتین سال کی تحقیق کے بعد انہوںنے ایک رپورٹ حکومت پاکستان کو پیش کی جس کاعنوان تھا: Development of Water & Power Resources of West Pakistan- A Sectoral Analysis ورلڈبنک اس رپورٹ کاتذکرہ ہمیشہ بڑے فخریہ اندازمیں کرتا تھا۔ رپورٹ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ:”یہ رپورٹ آئندہ کے لیے بہت مدت تک منصوبہ بندی، معاشیات اور انجینئرنگ کے ماہرین کے لیے ایک ماڈل ہوگا۔”

اسی رپورٹ میں کالاباغ ڈیم کے بنانے کے لیے سفارش کی گئی تھی۔اس تحقیقی رپورٹ کی چیدہ چیدہ Conclusions اورسفارشات اور حاصل کلام یہ ہے: -1 منگلاڈیم اور تربیلا ڈیم کے بجلی،پانی کے وسائل اور سیلاب سے بچاؤکی صلاحیت بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑھتی ہوئی معاشی اور معاشرتی ضروریات کی وجہ سے 1990ء کے قریب مکمل طورپر ختم ہوگی۔ -2 اگر پاکستان اپنی ترقی کی رفتاراپنی ضرورت کے مطابق رکھناچاہتاہے تو پھر 1992ء میں پاکستان کے پاس ایک تیسرا بڑاڈیم ہونا چاہئے اوریہ بھی سفارش کی گئی کہ اس ڈیم کے لیے ضروری انجینئرنگ کے تحقیقی کام کو 1977ء میں شروع کیا جائے۔ -3 یہ تیسرا بڑا منصوبہ کالاباغ ڈیم ہوناچاہئے۔ اس کے بعد بھا شاڈیم۔ اس حتمی رپورٹ کے بعد اس کی باقاعدہ تعمیر کا اعلان 1984ء میں کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی کچھ سیاسی طبقوں بالخصوص سرحداورسندھ کی طرف سے اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی اور اس کومتنازعہ پراجیکٹ بنا دیا گیا جس وجہ سے اس پرکام روک دیا گیا۔ بعد ازاں کوئی بھی حکومت اس معاملے میں سنجیدگی سے اقدامات نہ کرسکی۔

2005 ء میں اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف کو جب مکمل طورپہ حقائق سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے ڈیم بنانے کااعلان کردیالیکن اس کے خلاف ایک بار پھر سندھ اور سرحد(موجودہ KPK)میں شور برپا ہوا اور تین سال بعد ہی 26 مئی 2008ء کو وزیرپانی و بجلی راجہ پرویزاشرف نے اس کے خاتمے کااعلان کردیا۔ لیکن اب پچھلے چند سالوں میں مسلسل سیلابوں نے ملک کے پڑھے لکھے اور حقائق سے آگاہ طبقے کی توجہ ایک بار پھر اس جانب مبذول کروادی ہے اور یہ پروگرام اب پھر سے قومی مسئلہ بن کر سامنے آگیا ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی وہی طبقہ اس کی مخالفت پرڈٹاہواہے اوراپنے خدشات کااظہار کرتا ہے۔ آئیے ہم ان خدشات کاجائزہ لیتے ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے ناقدین: خدشہ نم1: کالاباغ ڈیم کے بننے سے نوشہرہ سیلاب سے ڈوب جائے گا۔ جائزہ: 29 اگست 1929ء کو دریائے سندھ اور کابل میں ایک ساتھ بہت بڑے سیلاب آئے۔ نوشہرہ شہر کی چھاؤنی اور شہرکے بہت سے حصے زیرآب آگئے تھے۔ اس کے علاوہ خیرآبادسے یپپبی تک جی ٹی روڈ کے کچھ حصے بھی سیلاب کی زد میں تھے۔ بعدازاں جولائی 2010ء میں 1929ء کے سیلاب سے 10فٹ اونچاسیلاب آیا تواس نے نوشہرہ اور دریائے کابل کے ملحقہ دیہات میں تباہی مچادی۔ 1929ء میں نوشہرہ میں ایک لاکھ 75 ہزار کیوسک کا ریلا آیا اور 2010ء میں چارلاکھ کیوسک کاریلا نوشہرہ کو ڈبو گیا۔یہ سب کچھ تب ہواجب کالاباغ ڈیم نہیں تھا۔ اگر کالاباغ ڈیم بنایاجاتا تویہ پانی کالاباغ ڈیم آسانی سے اپنے اندر جذب کرلیتا۔ علاوہ ازیں پہلے کالاباغ ڈیم کی اونچائی 925 فٹ رکھی گئی تھی لیکن اس اعتراض کے سامنے آنے کے بعد اس کی اونچائی 10 فٹ کم کرکے 915 کردی گئی جبکہ نوشہرہ شہرکی اونچائی 940 فٹ ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ915 فٹ کی اونچائی پہ بنایاگیا ڈیم 940 فٹ کی اونچائی پہ موجود شہرکوکیسے ڈبو سکتاہے؟

خدشہ نمبر 2: مردان،پبی اور صوابی کے میدانوں میں کالاباغ ڈیم کی وجہ سے نکاسی آب پر برا اثرپڑے گا جس سے یہ میدان(Saline & Waterlogged)اور ہو جائیں گے۔ جائزہ: کالاباغ ڈیم مردان سے 200 کلومیٹر، پبی سے 230 کلومیٹر اور صوابی سے 160 کلومیٹر کے فاصلہ پرہو گا۔کالاباغ جھیل کے پانی کالیول ان میدانوں سے کم ازکم 90 فٹ نیچے ہوگا۔ اگراس خدشے میں صداقت ہو تو پھر توان علاقوں کے لیے خطرہ کالاباغ ڈیم سے نہیں بلکہ تربیلاڈیم سے ہونا چاہئے ،جودور بھی نہیں بلکہ صوابی کے میدانوں کے ایک سرے پر واقع ہے اور مردان سے 50 کلومیٹر اور پبی سے 90 کلومیٹردور ہے اور جس کاپانی ان میدانوں سے 400فٹ اونچاہے ۔ کیازمین سے 90 فٹ نیچے کا پانی Waterlogging کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا یا 400فٹ میدانوں سے اونچا پانی؟ خدشہ نمبر3: قابل کاشت اورزرخیززمین پانی میں ڈوب جائے گی۔

جائزہ: کالاباغ ڈیم کے منصوبے سے زیرآب آنے والا آبپاشی کا زیرکاشت رقبہ تقریباً 3ہزارایکڑہے جس میں 2900 ایکڑ صوبہ پنجاب کاہے اور صرف100ایکڑ خیبر پختونخوا کاہے۔نکاسی آب کے Drains بناتے وقت بھی چھوٹے چھوٹے منصوبوں میں اس سے زیادہ زمین استعمال میں آکرزراعت سے نکل جاتی ہے۔یہ 100 ایکڑ توقابل بیان بھی نہیں ہے۔ البتہ ڈیم کے قیام کے بعد پاکستان کاکافی بنجرعلاقہ زرخیز زمین میں بدل سکتاہے اور موسم گرمامیں وہ زیرکاشت رقبہ جوآبپاشی نہ ہوپانے کے باعث کوئی پیداوار نہیں دیتا،پانی کی فراہمی کے باعث سدا بہاررہے گا۔ خدشہ نم4: جھیل کے لیے بیشترعلاقہ KPK کااستعمال ہوگا جبکہ کمائی پنجاب کوزیادہ ملے گی کیونکہ یہ پنجاب میں بن رہاہے۔ جائزہ: ڈیم کی جھیل کل 27 ہزار 500 ایکڑ زمین پر محیط ہوگی۔اس میں سے 22 ہزار ایکڑزمین پنجاب کی ہوگی اور صرف 5 ہزار 500 ایکڑ KPKکی ہوگی۔ علاوہ ازیں میانوالی کے سابق ایم این اے ڈاکٹر شیرافگن نیازی نے KPK کے اعتراض پریہ فارمولا پیش کیاتھا کہ کالاباغ ڈیم KPK اور پنجاب کے سنگم میں بن رہا ہے اوراس لیے کالاباغ ڈیم کایہ ساراعلاقہ جوکہ تقریباً دس یا پندرہ کلومیٹر بنتا ہے ۔ اس علاقہ کو KPKمیں شامل کر دیاجائے۔یہ تجویزاب بھی قابل عمل ہے اوراس پر مشاورت کی جاسکتی ہے۔

صوبہ سندھ کے ناقدین: خدشہ نمبر1: دریائے سندھ کا سارا پانی ڈیم میں روک لیا جائے گااورسندھ کی زمینیں ویران اوربرباد ہوجائیں گی۔ جائزہ: منگلا اور تربیلا ڈیمز کے بننے سے پہلے سندھ کو سالانہ اوسطاً 3 کروڑ 60 لاکھ ایکڑفٹ پانی ملتاتھا جو ان ڈیموں کے بننے کے بعد 4کروڑ30لاکھ ایکڑ فٹ ہوگیا ہے۔یعنی 70 لاکھ ایکڑفٹ پانی زیادہ ملنا شروع ہوا۔ یہ اعدادوشمارصوبہ سندھ کے محکمہ آبپاشی کی دی ہوئی معلومات پر ارسا (Indus River System Authority)نے بنائی ہیں۔اگر منگلا اور تربیلا ڈیمز سے صوبہ سندھ کوپانی زیادہ ملناشروع ہواہے تو اسی دریا پر کالاباغ ڈیم سے نقصان کیوں ہوگا؟

کالاباغ ڈیم پورے دریائے سندھ کو توجذب کر نہیں سکتا۔اس سے توپانی نے نکلناہی ہے اورکوئی چاہے یا نہ چاہے ،یہ پانی صوبہ سندھ بھی پہنچناہی ہے۔ فی الحال دریا کاپانی مسلسل تیزبہنے کی وجہ سے سمندرمیں گرکر ضائع ہوجاتاہے۔ اگرڈیم بن جاتاہے توایک ہفتے کے اندر اندر ڈیم میں مطلوبہ پانی کی مقدار پوری ہوجائے گی، اس کے بعد پانی کی وہی مقداربہے گی ،جتنی اب بہہ رہی ہے۔ البتہ ڈیم بننے کے بعد پانی ضائع ہوکر سمندر میں نہیں گرے گا۔بلکہ اسی پانی کی نہریں بنائی جائیں گی جو بہاولپور سے ہوتی ہوئی سندھ کے اندر بنائی جائیں گی جس سے سندھ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ تربیلااور منگلا ڈیمز کے بننے کے بعدسندھ کو70لاکھ ایکڑفٹ پانی اضافی ملتاہے اورکالاباغ ڈیم کی وجہ سے مزید 40لاکھ ایکڑ فٹ سندھ کو فراہم ہوجائے گا جوکہ پنجاب کے 20 لاکھ ایکڑفٹ سے دوگناہے۔

خدشہ نمبر 2: کالاباغ ڈیم منصوبے میں دریائے سندھ سے نہریں نکالی جائیں گی اور خدشہ ہے کہ ان میں اپنے حصے سے زیادہ پانی لیاجائے گاجس سے صوبہ سندھ کے لیے پانی کم رہ جائے گا۔ جائزہ: دریائے سندھ سے نہریں نکالنا کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔اس وقت 7نہریں دریائے سندھ سے پانی لے کر پنجاب اورخیبر پختونخوا صوبوں کی زمینوں کی سیرابی کرر ہی ہیں۔ کالاباغ ڈیم منصوبے کے تحت جو دونہریں بنیں گی ان کیCapacityتو اس سے بہت کم ہوگی۔یہاں پر یہ یاد کروانے کی ضرورت ہے کہ اگرایساہوا کہ سندھ کا پانی اور اس کاحق دوسرے صوبے کو دیاگیا تویہ (Water Apportionment Accord 1991)کی صریحاً خلاف ورزی ہوگی اوراس کی دیکھ بھال کے لیے ارسا (IRSA) جیساادارہ قائم ہے جس کی22سال میں ایک شکایت تک نہیں وصول ہوئی۔لہٰذا یہ سوچناہی بے بنیاد ہے۔

Indus River

Indus River

خدشہ نمبر 3: دریائے سندھ کاپانی کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا ڈیمز میں پانی کوپورا کرنے کے لیے سندھ میں پانی کی کمی کی جاسکتی ہے۔ جائزہ: پانی کی تقسیم ایک متفق شدہ فارمولے کے مطابق ہوگی اور یہ کام IRSA کے ذمے ہے جو اپنے فرائض اچھی طرح سے نبھا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسی بات کوڈیم کے بنانے کی دلیل کے طورپہ استعمال کیاجاسکتاہے کہ ایک بارڈیم میں مطلوبہ پانی مکمل ہوگیاتواس کے بعد صوبہ سندھ کو اس کا پانی سال بھر ملاکرے گا۔موسم سرمامیں اگرپانی کی کمی ہوئی تواس کو ڈیم میں موجود پانی سے کافی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں موسم سرما میں ویسے بھی بجلی کی طلب کم ہو جاتی ہے۔لہٰذا اگراسی پانی کو موسم سرما میں زراعت کے لیے استعمال کیاگیاتو دریائے سندھ سال بھر صوبہ سندھ کو پانی فراہم کرے گا۔ کالاباغ ڈیم کے فوائد: -1 پاکستان میں پن بجلی، گیس اور فرنس آئل سے بننے والی بجلی سے بہت سستی ہے۔ آج بھی تربیلا ، منگلا اور غازی بروتھا سے پن بجلی1روپے54پیسے فی یونٹ حاصل ہوتی ہے جبکہ گیس سے 6 روپے 50 پیسے فی یونٹ اور فرنس آئل سے 16 روپے 50 پیسے فی یونٹ بنتی ہے۔

لہٰذا کالاباغ ڈیم کے بننے کے بعدپن بجلی میں اضافہ ہو جائے گا اوربجلی کے نرخوں میں کافی حدتک کمی آجائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ایک روپے فی یونٹ مل سکے گی۔ -2 کالاباغ ڈیم منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی منگلا منصوبے سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔3600 میگاواٹ کااضافہ بجلی کے شارٹ فال میں کافی کمی واقع کر دے گا۔ -3 زراعت کی ضروریات کے لیے پانی کوذخیرہ کرنے کے لیے منگلا Reservoirسے زیادہ Capacity اس میں ہوگی۔ -4 دورانِ تعمیر تیس ہزار سے زائد افراد کو روزگار مہیا ہوگا۔ قیام کے بعدبھی یقیناکافی لوگوں کو روزگار فراہم کرے گا۔ -5 کالاباغ ڈیم کامنصوبہ ڈیرہ اسماعیل خان، وسطی پنجاب اورصوبہ سندھ کو سیلاب سے بچانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ کیونکہ یہ 6.7 ملین ایکڑ فٹ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرسکے گا۔یعنی کہ 2014ء کے حالیہ سیلاب جتنا پانی آسانی سے کالاباغ ڈیم اپنے اندر سمو سکتا ہے۔

-6 12.8ملین ایکڑ فٹ پانی میانوالی، خوشاب، ڈیرہ اسماعیل خان اور جہلم کے اضلاع کو زراعت کے لیے مہیا کرسکے گا۔ -7 سب سے زیادہ فائدہ سب سے زیادہ اعتراض کرنے والوں یعنی سندھ اور KPKکوملے گا۔ صوبہ سندھ میں 8 لاکھ، KPKمیں چار لاکھ چالیس ہزار ، بلوچستان میں پانچ لاکھ چالیس ہزار اور پنجاب میں چھ لاکھ 80 ہزار ایکڑ مزید زمین سیراب ہوجائے گی جو کہ ایک زرعی انقلاب لائے گی۔ کالاباغ ڈیم نہ بنانے سے نقصانات: -1 کالاباغ ڈیم کے نہ بننے سے پاکستان کو سالانہ تقریباً 180 ارب روپے کانقصان ہورہاہے جوپاکستان کا ہرشہری ہرسال 1000 روپے فی کس ادا کرکے پورا کرتاہے۔ -2 پن بجلی کو تقریباً 6400 میگاواٹ پرمنجمد کرنے سے گیس کااستعمال بجلی بنانے کے لیے بڑھ گیاہے جس کی وجہ سے گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے ہیں اور پاکستان کی اہم ضروریات کے لیے گیس کی کمی ہوگئی۔

-3 پاکستان میں چھوٹے ڈیمزبھی بننے چاہئیں لیکن کالاباغ ڈیم جیسے بڑے ڈیم کی قربانی دے کر نہیں۔ پاکستان میں پچھلے پچاس ساٹھ سال میں68چھوٹے اور درمیانے ڈیمز بنے ہیں جن کی اوسطاً سٹوریج تقریباً 8 ہزار ایکڑفٹ فی ڈیم ہے۔ اگرہم کالاباغ ڈیم جتنا سٹوریج چاہتے ہیں تو750چھوٹے ڈیموں کی ضرورت ہوگی۔ جن پرلاگت بھی اس سے کئی گناآئے گی۔اس کے علاوہ دریائے سندھ میںSiltبہت آتاہے۔دریائے سندھ میں یہ اوسطاً6لاکھ ٹن یومیہ ہوتاہے۔ اتنے Silt سے تو ایک چھوٹا یا درمیانہ ڈیم چند مہینوں میں پورا بھر جائے گا۔ اس کے علاوہ ان ڈیموں میںا یک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں ہوئی جو ہماری اشدضرورت ہے ۔پھریہ ڈیم سیلاب سے بچاؤبھی نہیں دیتے۔
-4 سب سے زیادہ نقصانKPK صوبے کوہوگا۔ کیونکہ جو بھی نیاڈیم بنے گا۔(1991ء )WAA کے تحت اس کاسٹور کیاہواپانی چاروں صوبوں میں تقسیم ہوگا۔ پنجاب،سندھ اور بلوچستان کاپانی دریائے سندھ میں بہتے ہوئے مختلف بیراجوں میںپہنچے گااور وہ تین صوبے اپنے حصے کا پانی بیراج سے اپنی نہروں میں منتقل کرکے زمینوں کو سیراب کریں گے۔ KPK ایسا نہیں کرسکے گا کیونکہ اس کے حصے کاپانی بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اس 8لاکھ ایکڑ رقبے کے لیے استعمال ہوگاجو قابل کاشت توہے لیکن پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ہی پڑاہے لیکن وہ زمین جو دریائے سندھ سے 50 فٹ سے 150 فٹ تک اونچی ہے ۔اس کو سیراب کرنے کے دوہی طریقے ہیں۔
-1 پانی کو پمپ کیاجائے۔ 50 فٹ کی اونچائی پر فی ایکڑ پمپ کرنے کا خرچہ 7 ہزار روپے بنتاہے۔

-2 کالاباغ ڈیم بنا کر جھیل سے نہربناکر اس اونچی زمین کو سیراب کیا جائے توسالانہ آبیانہ صرف 500 روپے ہوگا۔ لاگت: 1992ء میںکالاباغ ڈیم کی تکمیل کے لیے 250ارب روپے کاہدف رکھاگیا۔لیکن آج روپے کی قیمت کم ہونے سے تقریباً 800ارب روپے کااندازہ لگایا جارہاہے لیکن پچھلے دنوں UETلاہورمیں ہونے والے ایک سیمینارمیں چیئرمین انڈس واٹرکونسل آف پاکستان ڈاکٹر سلیمان صاحب نے بتایاکہ اگرپوری ایمانداری سے کام کیاجائے تویہ منصوبہ 400 ارب روپے میں ہی پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ”قوت اخوت عوام فورم” کے چیئرمین شیخ طاہرانجم صاحب نے بتایا کہ پاکستان کاتاجراور سرمایہ کارطبقہ FBRاورCBRکوسالانہ100ارب روپے کی رشوت دیتاہے ۔لہٰذا اگر صرف چارسال یہ رشوت نہ دی جائے توہمیں اس پراجیکٹ کے لیے ورلڈبنک سے بھی مالی تعاون لینے کی ضرورت نہیں رہے گی اورملک کا تاجر اورسرمایہ کار طبقہ ہی اس کی لاگت برداشت کرسکتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

لیکن اگر اس پراجیکٹ پرمزید سستی اختیار کی گئی اور اسے تعمیر نہ کیاگیا توممکن ہے کہ چند سالوں تک اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہو جائے۔ علاوہ ازیں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے جومشینری منگوائی گئی تھی وہ پڑے پڑے زنگ آلود ہوچکی ہے اوراب نئی مشینری کا انتظام بھی کرناپڑے گا۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انٹیلی جنس بیوروکے ذرائع کے مطابق بھارت تقریباً 19 ارب روپے کالاباغ ڈیم کی مخالفت اورپاکستان میں دہشت گردی کو مضبوط کرنے میں خرچ کررہا ہے اورشاید یہی بات ہے کہ ہمارے جاگیردار اورنام نہاد سیاستدان اس کی اہمیت کو سمجھنا نہیں چاہ رہے۔ ان کے رویے کو دیکھ کر یہی شعر ذہن میں آتا ہے کہ:
نگاہِ لطف مت اٹھا خوگر آلام رہنے دے
ہمیں ناکام رہنا ہے ہمیں ناکام رہنے دے
اوربیچارے عوام کایہ حال ہے کہ:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

تحریر:عدیل اسلم