جہیز کا ناسور ایک اور بیٹی کی جان لے گیا۔

Dowry

Dowry

ماضی میں بیٹی کے پیدا ہونے پر غریب والدین یہ سوچ کر پریشان ہوجایا کرتے تھے کہ بیٹی کی شادی پر جہیز دینا پڑے گا اور اگر جہیز نہ دے پائے تو سسرال والے بیٹی کی عزت نہیں کریں گے۔ بگڑتے ہوئے معاشرے میں بیٹیوں کے والدین کو نہ صرف جہیز کی فکر لاحق ہے بلکہ اُن کی عزت و عصمت کو محفوظ رکھنا بھی خاصہ مشکل ہوچکا ہے۔ جہیز دور جہالت کی وہ رسم ہے جس کی وجہ سے زنا، جنسی بے راہ روی، جسم فروشی، فحاشی اور دیگر کئی مسائل کو جنم دیتی ہے۔

جن معاشروں میں جہیز کی رسم شدت اختیار کرجاتی ہے اُن میں نکاح مشکل اور زنا آسان ہوجایا کرتا ہے ،جب زنا عام ہوجائے تو شراب نوشی ،فحاشی ،جنسی بے راہ روی، قتل و غارت جیسے مسائل عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ جہیز جمع کرنے میں عزت دار اور باغیرت خاندانوں کی بیٹیاں رات کے اندھیرے میں اپنی عصمت کا سستے داموں سودا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

مہنگائی اور بے غیرتی بھرے معاشرے میں بیٹیاں والدین کے لئے قابل نفرت ہوا کرتیں ہیں ۔اسلام سے پہلے جب اہل عرب اس جاہل رسم کے دل دادا ہوا کرتے تھے تب لوگ بیٹی پیدا ہونے پر فورا یا سال دو سال بعد زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ شائد اُن لوگوں کی مجبوری تھی کہ وہ بچے کے پیدا ہونے سے پہلے معلوم نہیں کر پاتے تھے کہ ماں کے پیٹ میں بیٹا ہے۔

یا بیٹی اگر اُن کے پاس ہماری طرح قابل ڈاکٹر اور الٹراسائونڈ کی سہولت موجود ہوتی تو وہ جہالت میں ہم سے پیچھے ہوتے لیکن آج ہم اسلام سے پہلے کے دور جہالت میں زندگی گزارنے والوں سے جیت چکے ہیں۔وہ بیٹی پیدا ہونے کے بعد زندہ دفن کیا کرتے تھے اور ہم ماں کے پیٹ میں بیٹی کی خبر سن کر بیٹی کو قتل کردیتے ہیں یہاں تک کہ اکثر بیٹی کے ساتھ ساتھ ماں کو بھی بے موت مرنا پڑتا ہے۔

Murder

Murder

ایسا ہی ایک واقع چند روز قبل لاہور کے علاقہ گجر پورہ میں پیش آیا جہاں 8 ماہ کی نئی نویلی دلہن کرن کو سسرالیوں نے جہیز کم لانے اورپیٹ میں بیٹے کی جگہ بیٹی پالنے کے جرم میں تشدد کے بعد گلا دبا کر بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا۔ کرن کے والدین کے دلوں پر تو جو گزرنی تھی سو گزری اس خبر کو سننے اور پڑھنے والے بیٹیوں کے والدین کے دل پھٹ گئے ہوں گے۔

کرن کا پہلا جرم تو یہ تھا کہ وہ شادی کے موقع پر والدین کے گھر سے جہیز کم لائی تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے دن سے ہی اپنے سسرالیوں کو اچھی نہیں لگتی تھی، دوسرا جرم یہ تھا کہ شوہر اور سسرالیوں کی خواہش کے مطابق بیٹے کی بجائے بیٹی پیدا کرنے جارہی تھی۔ یہ جرم اس قدر شدید تھے کہ کرن کے سسرالیوں نے پہلے گرم استری سے اُس کا جسم داغا پھر بجلی کا کرنٹ لگایا اور آخر میں گلا دبا کر جان سے ہی مارڈالا۔

تھانہ گجر پورہ کے انچارج انویسٹی گیشن کرامت بھٹی کے مطابق ملزم جیکسن جو کے مقتولہ کرن کا شوہر ہے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ گرفتار ملزم جیکسن نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے جبکہ اُس کے گھر والے جو کہ جرم میں برابر کے شریک ہیں ابھی تک فرار ہیں۔ یہ کہانی صرف ایک کرن کی نہیں ہے بلکہ ہر روز اسی طرح کوئی نہ کوئی ماری جاتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں ماں کو سزاموت ہوسکتی ہے تو پھر باپ کیوں بے گناہ ٹھہرتا ہے بچوں کی پیدائش پر جتنا ماں کا اختیار ہے کیا باپ کا اُس سے کم ہے کیا کسی ماں کے بس میں ہے کہ وہ چاہے تو بیٹا پیدا کرے اور چاہے تو بیٹی مقتولہ کرن کا شوہر جیکسن اکیلا نہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح ہم سب کرن کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔

اگر ہم جہیز اور بیٹوں کے لالچی نہیں پھر بھی ہم اس بے حس معاشرے کا حصہ تو ہیں راقم کی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے درد مندانہ اپیل ہے کہ فوری طور پر جہیز پر سخت پابندی عائد کی جائے تاکہ اس معاشرے میں بیٹیوں کی عزت اور زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو پھر کوئی طاقت کسی کرن کو تشدد اور قتل سے نہیں بچاسکتی۔ جب تک معاشرے سے جہیزجیسی فرسودہ رسم کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک گجرپورہ کی کرن کی مانند پتا نہیں کتنی ہی روشن کرنیں قبر کے اندھیروں میں گم ہوتی رہیں گی۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر
imtiazali470@gmail.com.