جہاد بالسیف یا جہاد بالنفس

Rasool Akram (S.A.W.S)

Rasool Akram (S.A.W.S)

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے، سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جہاد کا حکم کب نازل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے عمل سے اس کی کیا تشریح فرمائی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہاد کا حکم مکی دور میں نازل ہو چکا تھا۔ اللہ تعالی سورة الفرقان میں ارشاد فرماتا ہے، یعنی کافروں کی پیروی نہ کر اور اس کے زریعہ ان سے ایک بڑا جہاد کر ( الفرقان :٥٣) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاد سے صرف یہی مراد تھی کہ قتال کیا جائے اور جنگ کی جائے تو ناممکن تھا کہ اس حکم کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ مکی زندگی میں ہی بلا توقف قتال اور جنگ شروع کر دیتے جب کہ اس وقت مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی ہر طرح سلب کی جارہی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور جب قرآن کریم میں قتال کی مشروط اجازت مدنی زندگی میں نازل ہوئی تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں انتہائی مجبوری کی حالت میں تلوار اُٹھانی پڑی۔

پھر مکہ میں نازل ہونے والی سورتوں میں جہاد کرنیوالوں کا زکر بھی مل جاتا ہے چنانچہ سورة النحل جو کہ مکہ میں نازل ہوئی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے ترجمعہ۔ پھر تیرا رب یقینا ان لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ وہ فتنہ میں مبتلا کئے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقینا تیرا رب اس کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے( النحل :١١١) باوجود سخت آزمائشوں کے قتال نہیں کیا جا رہا تھا۔ قرآن کریم سے ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جہاد مال سے بھی کیا جاتا ہے، جیسا کہ سورة الانفال میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ۔ وَ جٰھد و ابا موالھم و انفسھم فی سبیل اللہ۔(الانفال :٧٣)

یعنی انہوں نے اموال اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا اس آیت کریمہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہاد مال سے بھی کیا جاتا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ضمن میں کیا ارشادات ہیں۔؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت مجاہد کسے کہتے ہیں۔؟؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ۔ المجاھد مَن جاھد نفسہ یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے ( جامع ترمذی ابواب فضائل الجھاد ) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جاھدوا المشرکین بااموالکم و انفسکم السنتکم یعنی مشرکین سے اپنے اموال سے اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو۔ (سنن ابی دائود باب کاھیة ترک الغزو)

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد کی ایک سب سے عظیم قسم ہے ( جامع ترمذی باب افضل الجھاد کلمہ عدل عند سلطان جائر ) ان ارشادات نبویہ سے یہ بات ظاہر ہے کہ جہاد صرف جنگ کرنے کو یا تلوار اُٹھانے کو نہیں کہتے، اس کے بہت سے معانی ہیں اور ان وسیع معانی کو محض قتال تک محدود کر دینا ایک نادانی ہے۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قتال کو”جہاد صغیر” قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک غزوہ سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر یعنی ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آرہے ہیں۔ ( رد المختار علی المختار کتاب الجھاد )

Allha

Allha

اب جہاں تک قتال کا تعلق ہے یہ دیکھنا چاہئے کہ شریعت نے اس کے لئے جو شرائط مقرر کی ہیں وہ پوری ہو رہی ہیں کہ نہیں۔ اہل حدیث کے مشہور عالم نزیر حسین صاحب دہلوی فتاوی نزیری میں تحریر کرتے ہیں۔ جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہیں ہوگا۔ اول : یہ کہ مسلمانوں کا کوئی امام وقت و سردار ہو۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک نبی کا انبیا سابقین سے قصہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی امت نے کہا کہ ہمارا کوئی سردار اور امام وقت ہو تو ہم جہاد کریں۔ حدیث میں آیا ہے کہ امام ڈھال ہے اس کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہئے اور اس کے ذریعہ سے سے بچنا چاہئے ( الحدیث رواہ البخاری و مسلم ) دوسری شرط: اسباب لڑائی کا مثل ہتھیار وغیرہ کے مہیا ہو جس سے کفار کا مقابلہ کیا جاوے۔

اللہ تعالی نے فرمایا ترجمہ اور سامان تیار کرو اور ان کی لڑائی کے لئے جو کچھ ہو سکے تم سے ہتھیار اور گھوڑے پالنے سے اس سے ڈرائو اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمنوں کو۔ یعنی قوت کے معانی ہتھیار اور سامان لڑائی کے ہیں اور فرمایا اللہ تعالی نے ترجمہ اے ایمان والو! اپنا بچائو پکڑو، پھر کوچ کرو جدا جدا افواج یا سب اکٹھے۔ یعنی حزر سے مراد لڑائی ہے مثلا ہتھیار وغیرہ کا مہیا ہونا ضروری ہے اور حدیثوں سے بھی اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بغیر ہتھیار کے کیا کرے گا۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قلعہ یا ملک جائے امن ہو کہ ان کا ماوایا و ملجا ہو، چنانچہ قرآن کے لفظ من قوة کی تفسیر عکرمہ نے قلعہ کے کی ہے۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب تک مدینہ ہجرت نہ کی اور مدینہ جائے پناہ نہ ہوا جہاد فرض نہ ہوا، یہ صرحتہ دلالت کرتا ہے کہ جائے امن ہونا ضروری ہے۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اتنا ہو کہ کفار کے مقابلہ میں مقابلہ کر سکتا ہو یعنی کفار کے لشکر سے آدھے سے کم نہ ہو۔ (فتاوی نزیر یہ جلد سوم ص ٢٨٢،٢٨٤) اس فتوی سے ظاہر ہے کہ جہا د امام وقت کے حکم اور اس کی اتباع کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا اور اگر امام الزماں قتال سے روک رہا ہو تو پھر اس کو جہاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ نظریہ جس کا عیسائی زور شور سے پرچار کر رہے ہیں کہ اسلام تلوار اور جبر کے زور سے پھیلا ہے سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے تو ہر طرح کے مظالم کا سامنا کر کے یہ تعلیم دی ہے کہ لا اکراہ فی الدین ،یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں اور یہ خیال بھی لغو ہے کہ اب ایسا کوئی مہدی یا مسیح آئے گا جو تلوار چلا کر لوگوں کو اسلام کی طرف بلائے گا، بلکہ آخر مہدی کے دور میں اسلام تبلیغ کے ساتھ پھیلے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے فذ کر ان نفعت الذکری (الاعلی ١٠) پس نصیحت کر۔ نصیحت بہر حال فائدہ دیتی ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا فذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر ( الغاشیہ: ٢٢،٢٣) ترجمہ پس بکثرت نصیحت کر۔ تو محض بار بار نصیحت کرنے والا ہے تو ان پر دروغہ نہیں ہے۔ یقینا اسلام سراسر سلامتی کا مذہب ہے۔ امن پسند اور صلح جو۔ اپنی تمام تر خوبیوں اور خوبصورت تعلیمات کے ساتھ۔ اسلام زندہ باد اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد۔الھم بارک علی محمد وعلی ال محمد۔

Maryam Samar

Maryam Samar

تحریر : مریم ثمر