تحریر : نعیم الرحمان شائق ان دنوں شہر ِ قائد کے چند علاقوں میں پانی کا شدید بحران ہے ۔ اس کی وجہ پمپنگ اسٹیشنوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے ۔ جمعرات کو خبرآئی کہ شہر میں پانی کی قلت 348 ملین گیلن ہوگئی ۔ جس سے قلت ِ آب کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ادھر وزیر ِ اطلاعات و بلدیا ت کے الیکٹرک پر سخت بر ہم ہیں انھوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے عدالت کے واضح احکامات کے با وجود واٹر پمپنگ پر گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کو کراچی کا امن و امان خراب کرنے کے مساوی قرار دیا ۔ اس طرح انھوں نے سندھ اسمبلی میں بھی کے الیکٹرک کو کھر ی کھر ی سنائیں ۔ انھوں نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کے ذمہ داروں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو انھیں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں میں ڈالا جائے گا ۔ مسئلہ پانی کا ہو یا بجلی کا ۔ اس کے لیے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ابھی رمضان المبارک کا مقدس مہینا نہیں آیا ۔ ابھی سے ہی پانی اور بجلی کے مسائل شروع ہو گئے ہیں ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔ شہر ِ قائد کے عوام کو اگر پہلے صرف بجلی کا مسئلہ درپیش تھا تو اب پانی جیسی اہم بنیادی ضرورت کا مسئلہ در پیش ہے۔
لوگوں نے شکا یت کرتے ہوئے مجھے بتا یا کہ ہمیں صبح چار بجے اٹھ کر پانی بھرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ پھر سارا دن پانی نہیں آتا ۔ لوگ پینے کا پانی خرید خرید کر پی رہے ہیں ۔ لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ ایک صاحب نے خوشی خوشی بتایا کہ آج کئی ہفتوں کے بعد وہ صاف ستھرے پانی سے نہائے ۔ لوگ بد بودار پانی پر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ پانی بھی خرید خرید کر پیا جارہا ہے ۔ کیا کبھی پہلے بھی ایسا ہوا تھا کہ اللہ کی اس انمول نعمت کو خریدا جائے ۔حکام کو چاہیے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم نہ رکھے ۔ سخت ترین گرمی میں اگر ایک انسان پانی اور بجلی دونوں سے محروم ہو تو کیا بنے گا ۔ ہمارے ملک میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے ۔ امیر لوگ تو بجلی نہ ہونے کی صورت میں جنریٹر سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں خرید کر پی سکتے ہیں ، لیکن ان غریب لوگوں کا کیا ہوگا ، جن کی کم زور معیشت میں جنریٹر خریدنے کی سکت نہیں ۔ جن کی جیبوں میں پانی خریدنے کے لیے وافر مقدار میں پیسے نہیں۔
ماہرین باور کرار ہے ہیں کہ 2020۔25 میں جنوبی ایشیا میں میٹھے پانی کا شدید بحران آنے کو ہے ۔ جس سے یہاں کے باسیوں کی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوں گے ۔ یہ آبی بحران انسانی زندگی کے ساتھ دوسری مخلوقات کی زندگی کو بھی شدید متاثر کرے گا ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے تمام گلیشیرز پگھل جائیں ۔جس سے میٹھے پانی کا یہ جان لیوا بحران جنم لے گا ۔ عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں ، جو پہلے سے ہی کچھ بچا کر رکھیں ۔وہ عقلمند نہیں جسے خطرات کا علم ہو ، لیکن وہ پھر بھی چپ سادھےمنتظر ِ فردا ہو ۔ اب اس بحران سے پہلے سے نمٹنے کا دو طریقے ہیں ۔ پہلا تو یہ ہے کہ سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے اقدامات کیے جائیں ۔ مگر یہ ایک مہنگا طریقہ ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ چاہیے۔
Dams
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ڈیمز بنائے جائیں دنیا بھر میں زیادہ تر ملک دوسرے طریقے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ کیوں کہ یہ ایک سستا ترین طریقہ ہے ۔ اس کے لیے زیادہ سرمائے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا اور بنگلہ دیش ڈیمز پر ڈیمز بناتے جارہے ہیں ۔ لیکن پاکستان کی طرف سے ایسے اقدامات بالکل نظر نہیں آرہے ۔میرے خیال میں سڑکوں اور پلوں سے زیادہ ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں ، مستقبل میں تیسری جنگ کی بڑی وجہ پانی کا مسئلہ ہوگا ۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے ، یہ تو اس وقت پتا چلے گا ، جب ہماری یا ہماری آنے والی نسلوں کی آنکھیں تیسری جنگ کا مشاہدہ کریں گی۔ مگر اسی پانی کے مسئلے کی وجہ سے جمعے کے روز سندھ اسمبلی کا درجہ ِ حرارت عروج پر تھا ۔ ارکان کی طرف سے گرم گرم باتیں ہوئیں ۔ جس سے ایک طرف تو پانی کے بحران کی شدت کو جانچا جا سکتا ہے ، جب کہ دوسری طرف ارکان کے غم اور غصے کا اندازہ بھی لگا یا جا سکتا ہے۔
مختصرا سمبلی میں ہونے والی باتیں لکھتا ہوں ۔پانی کی شدید قلت کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن محمد حسین کی تحریک التوا پر بحث کرتے ہوئے ارکا ن نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کراچی کے واٹر بورڈکو فوج یا رینجرز کے حوالے کر دیا جائے یا اس کی نج کاری کر دی جائے ۔ کراچی میں پانی کے مسئلے پر فساد ہو سکتے ہیں ۔ کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام قلت ِ آب کا شکار ہیں ۔ وفاقی حکومت کھربوں روپے موٹر ویز اور دیگر منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے ۔ لیکن کراچی میں پانی کے منصوبے کے لیے رقم جاری نہیں کی جار ہی ۔ کراچی میں پانی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں۔
Sharjeel Memon
آخر میں سندھ کے وزیر ِ بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نےاسمبلی کے ارکان کو بتا یا کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی گنجائش 550 ایم جی ڈی سے زیادہ نہیں ۔ اس کی گنجائش مزید 65 ایم جی ڈی بڑھانے پر کام ہورہا ہے ۔ دعا کریں کہ بارش ہوجائے ۔ اور حب ڈیم سے 100 ایم جی ڈی پانی ملنا شروع ہو جائے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری باتیں ہوئیں ۔کراچی کے غریب عوام پانی اور بجلی کے مسئلے کے حل کے لیے حکام کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔نہ جانے یہ مسائل کب حل ہوں گے !!