مقبوضہ کشمیر پر بھارتی لشکر کشی کے 74 سال

Indian Army Kashmir

Indian Army Kashmir

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر

74برس قبل 27اکتوبر1947ء کو ایک گہری سازش کے تحت بھارت نے کشمیر پر لشکر کشی کرتے ہوئے اس پر اپنا نا جائز تسلط جما لیا تھا۔ جس کے بعد آج تک وہاں فوجی راج قائم ہے اور بھارت جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم رکھنے کے لئے تمام حربے آزما رہا ہے۔

اسی روز27اکتوبر کو بھارتی غاصب افواج کی کشمیر پر قبضے کے خلاف کشمیری پوری وادی میں یوم سیاہ مناتے ہیں، اس برس بھی وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔ کٹھ پتلی حکومت نے اس موقع پر حریت کانفرنس کی تمام قیادت کو گھروں میں قید رکھا۔ جبکہ شہروں اور دیہاتوں میں کرفیو کی کیفیت تھی، اس کے باوجود کشمیر یوں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔

حافظ سعید احمد کے مطابق در حقیقت میں دیکھا جائے تو 27اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جو حملہ کیا وہ ریاست جموں و کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پاکستان پر تھا، یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے نہ جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا اس کا مطلب یہ کہ اہل کشمیر کو صرف پاکستان سے محبت کی سزا ملی ہے، سزا و جفا کا سلسلہ 74سالوں سے جاری ہے اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی، اس لئے کہ اس محبت کی بنیاد دینوی اعراض و مفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے۔ کشمیری بزرگ قائد سید علی گیلانی ، سید بشیر احمد شاہ، میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، یٰسین ملک، محتر مہ سیدہ آسیہ اندرابی، حریت کانفرنس کے دیگر قائدین و کارکنان کشمیری عوام بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ،پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں ،سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں اور عہد وفا نبھا رہے ہیں۔

تاریخی جغرافیائی قومی اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ریاست کا پاکستان سے الحاق ہونا تھا۔ مگر گہری سازش کے نتیجے میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دیں یہ سب اچانک نہیں ہوا کشمیریوں کی خواہش کے برعکس کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے الحاق کے اعلان کو مئوخر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو کشمیری عوام نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا، اس دوران انہیں بھارتی بیورو کریٹ وی پی مینن کے راجہ کے گھر میں موجودگی اور کشمیر کے بھارت سے الحاق کے لئے بھارت اور راجہ کے مابین ہونے والی سودے بازی کی اطلاع ملی تو اس کے خلاف احتجاج کے لئے ہزاروں کشمیری راجہ کے محل کے باہر اکٹھے ہو گئے، ہری سنگھ کی ظالم ڈوگرہ فوج نے کشمیریوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری رخمی ہو گئے، صورت حال کو بے قابو ہوتا دیکھ کر وی پیمینن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو فوری طور پر جموں منتقل کرنے کا حکم دیا۔

اس حکم کے نتیجے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مہاراجہ عملاً بھارت کا قیدی بن چکا ہے اور ڈوگرہ فوج بھارت کی وفاداری کر رہی ہے۔وی پی مینن کے حکم پر مہاراجہ ہری سنگھ کی جموں منتقلی نے کشمیریوں کے اشتعال میں مزید اضافہ کر دیا، کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ بھارت کشمیر پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے خلاف احتجاج نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مہاراجہ نے 26اکتوبر 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے بھارت کے سر براہ کے طور پر مائونٹ بیٹن سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مذکورہ خط وی پی مینن نے لارڈ مائونٹ بیٹن تک پہنچایا تھا۔

مہاراجہ کے خط کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے جس انداز سے شرف قبولیت بخشا اس کا جواب نہیں جسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کے اعلان میں تاخیر اور اس سے بھی قبل بائونڈری کمیشن کی طرف سے مغربی پنجاب میں مسلمان اکثریتی آبادیوں والی چند اہم تحصیلوں کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کرنے کے اعلان کو مائونٹ بیٹن کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی ورنہ بھارت کا کشمیر سے زمینی راستہ منقطع ہو جاتا۔

ریاست کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر مہاراجہ نے جو ظالمانہ اقدامات کئے اس کی مثال نہیں ملتی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا جبکہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلحہ سرکار کو جمع کروا دیں چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ بعد ازاں مہاراجہ کی ایماء پر آر ایس ایس نے ہندو راج سبھا و دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے پچاس ہزار کارکن کشمیر میں پہچائے گئے جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کر لیں مہاراجہ کی فوج کے افسروں نے ان بلوائیوں کو ہتھیار بنانے، چلانے، مسلمانوں کے قتل خواتین کی آبرو ریزی کی تربیت دی۔ ان ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کوشہید کیا ،آبادیاں ویران کر دیں ،مسجدیں جلا دیں، گھر لوٹ لئے، درجنوں دیہات ایسے تھے جہاں کے تمام مردو زن اور بچوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا تھا، ایک صرف ریاست کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی اور دوسری جانب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے پنجے گاڑ ھ لئے۔

71سالوں سے بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ایسا خطہ ہے جس میں دس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میںیکم جنوری1948ء کو لے کر گیا تھا اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا جو کہ اقوام عالم کی بے حسی اور ہندوستان کی عکاسی کو ظاہر کرتا ہے۔قرار داد خود ہی پیش کی اور آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے، اس قرار داد کے اہم نقاط یہ تھے۔

1۔ فوری طور پر جنگ بندی ہو
2۔ریاست جموں و کشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔
3۔ ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔
4۔صورتحال معمول پر آ جائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی جانے سے اگست1949ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950ء میں اپنا نامزد نمائندہ بھیجا۔ اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے نکل جائیں اور کچھ روز بھارتی افواج بھی چلی جائیں، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشا کو توڑ دیا جائے، رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تا کہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔

Haji Mohammad Latif Khokhar

Haji Mohammad Latif Khokhar

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر