تحریر : عثمان حنیف یقین نہیں آتا کہ جو کل ہم سے بات کر رہا تھا آج منوں مٹی تلے دبا ہے۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ واٹر پارک میں کراچی شہر کی ماراماری سے جان چھڑا رہا تھا اور تفریح میں مشغول تھا کہ ایک دوست نے موبائل پر آنے والا میسج پڑھ کر بتایا کہ جامعہ کراچی کے کسی پروفیسر کو قتل کر دیا ہے۔ یہ خبر ہم دوستوں کے لیے اس لیے اہمیت رکھتی تھی کہ ہم تمام دوستوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے ایم اے کیا تھا۔ تھوڑی سی توجہ کے بعد ہم سب پھر اپنی تفریح میں مشغول ہوگئے یہ سوچ کر کہ یہاں ہر روز کوئی نہ کوئی مرتا رہتا ہے۔ آپ اسے بے حسی کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل ہونے کی خبر سن کر ہم دوبارہ اپنی تفریح میں مشغول ہوگئے تھے لیکن کیا کریں کراچی میں رہنے والے اگر ہر قتل کاسوگ منانے لگے تو پاگل ہی ہوجائیں اور اگر آپ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ صورتحال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے۔
کراچی کی صورتحال تو یہ ہے کہ ہر ایک کو میں اور ہر ایک مجھے قاتل نظر آتا ہے، بائک پر کوئی پاس سے گزرے تو لگتا ہے کہ بس اب یہ پستول نکالے گا اور بلاوجہ ہم پر فائرنگ شروع کر دے گا۔ خیر تفریح میں ہم نے پورا دن گزاردیا، یونی کے کلاس فیلوز کے ساتھ اچھا وقت گزرا تھا، شہر کی ڈپریشن میں مبتلا کرنے والی تیزی سے ایک دن کے لیے جان چھوٹی تھی۔ بس جب ہم سفر ختم کرکے اپنے دوست کے گھر پہنچے تو تھوڑی دیر بعد ہماری ساری خوشی غم میں تبدیل ہوگئی تھی، دوست کے گھر وائی فائی کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا ٹویٹر چیک کیا تو ایک قومی روزنامے کی ٹویٹ بہت زیادہ شیئر ہونے کی وجہ سے ٹویئٹر کی ٹاپ ٹویٹس میں چل رہی تھی۔ سوچا کہ چلو دیکھ لیتے ہیں کسے قتل کیا گیا ہے، جب یہ خبر دیکھی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ایسو سی ایٹ پروفیسر وحیدالرحمن کو قتل کر دیا گیا ہے ، ماس کمیونیکیشن دیکھ کر خبر کی اہمیت ہمارے لیے اور بڑھ گئی اور افسوس کیا اور سوچا کہ تصویر دیکھیں کہ کسے قتل کر دیا گیا۔
Professor Waheedur Rehman
مجھے یہ تو معلوم تھاکہ یاسر رضوی کا یہ قلمی نام ہے لیکن ان کا اصل نام مجھے معلوم نہیں تھا۔ گذشتہ سمسٹر میں جب ان کا اسائنمنٹ جمع کروانا تھا تو سوچا کہ ان کا اصل نام پوچھ لوں لیکن پھر فوری رابطہ نہ ہونے پر یہ سوچ کر ٹائٹل پیج یاسر رضوی کے نام سے پرنٹ کروالیا کہ اگر انہوں نے تبدیل کرنے کو کہا تو اصل نام لکھ دوں گا ورنہ جانے دو۔ موبائل کی سکرین ہونے کی وجہ سے صرف خبر کی ہیڈلائن اور ابتدایہ (انٹرو )تک میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسے قتل کر دیا گیا ہے کیونکہ وحیدالرحمن نام میں نے پہلی بار سنا تھا۔ لیکن جب نیچے آیا تو یاسر رضوی کے جامعہ کے کارڈ سے لی گئی تصویر دیکھ کر جھٹکا لگا لیکن یقین نہ آیا۔ تصدیق کے لیے فوری سکرین نیچے کی تاکہ کوئی واضح تصویر دیکھ کر میرا خیال غلط ثابت ہوجائے لیکن ایسا نہ ہوا اور نیچے ایک واضح تصویرتھی جس نے میرے خیال کی واضح تصدیق کرکے مجھے شدت غم میں مبتلا کر دیا میں نے فوری طور پر اپنے دوستوں کو بتایا اور وہ لوگ جو دن بھر کی تفریح کے ذکر سے محظوظ ہورہے تھے۔
Journalism
اب غمگین ماحول میں محور گفتگو یاسر رضوی تھے کہ کیسے انہوں نے صحافت اور خاص کر رپورٹنگ جیسے مشکل اور مصروفیت والے پروفیشن کے ساتھ پی ایچ ڈی کر لی۔ اس دوران کتنی مصروف زندگی گزری ہوگی ان کی، یاسر رضوی کے والد کا انتقال انکی طالب علمی کے دور میں ہی ہوگیا تھا اس لیے اندازہ کیجیے کہ کتنی مصروفیت اور جفاکشی والی زندگی گزاری ہوگی۔ اب جب کچھ فرصت کے لمحات ملے تو ظالمو ں نے ان کی زندگی ہی ختم کر دی۔ پروفیسر معاشرے کا ذہن ہوتے ہیں۔ قاتلوں نے ایک انسان کو نہیں اس معاشرے کے ذہن کو قتل کر دیا۔ باقی جہاں تک یاسر رضوی کا تعلق ہے تو وہ جاتے جاتے بھی ہمیں یہ سبق سکھا گئے ہیں کہ زندگی میں مصروفیات و مجبوریاں کیوں نہ ہوں آپ اگر اپنا کوئی گول سیٹ کر لیں اور رفتہ رفتہ کام جاری رکھیں تو اپنا اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔