مزدور ہمارا قومی اثاثہ

Labor Day

Labor Day

تحریر : وقاص معین چنی گوٹھ

مزدور ہمارے معاشرے میں ریڈ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں مگر کبھی ہم نے ان کو اس حیثیت کے قابل سمجھا ہی نہیں۔ہمیشہ سے مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو ہم نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ہم معاشرے میں چاہے کہی بھی رہ رہے ہوں ہمیں کبھی نا کبھی مزدوروں کی ضرورت پڑھ ہی جاتی ہے ریلوے اسٹیشن پر بھی سامان اٹھانے کے لیے ہمیں قولی (مزدور) کی ہی مدد لینی پڑتی ہے۔گھروں کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا گھر کے سامان کا ہمیں ہر صورت یہ مزدور ہی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔زمین کی کھودائی کا مسئلہ ہو یا کوئی اور بھاری بھر کام لینا ہو مزدوروں کی محنت کے بنا ممکن ہی نہیں ہے۔

آج ہم جس چھت کے نیچے رہ رہے ہیں ان کی تعمیر میں بھی مزدوروں کا ہی ہاتھ ہیں آج ہم اتنے مہنگے اور بھاری بھر ملبوسات زیب تن کیے نمائش کرتے ہیں ایسے ملبوسات کی تیاری میں بھی مزدوروں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔اور ہمارے پائوں کی جوتیاں و ہمیں چلنے میں آسانی پیدا کرتی ہیں ان کی تیاری میں بھی ان غریب مزدوروں کا ہی کردار ہوتا ہے۔سب سے غور طلب بات یہ کہ ہم جو خوراک کھاتے ہیں،جو معدنیات حاصل کرتے ہیں وہ سب کہاں سے آتی ہیں۔؟ارے بھائی یہ مزدور بھائی ہی کی بدولت ممکن ہے۔

یہ بیچارے مزدور دن رات ایک کر کے اپنی جانو کو دائو پر لگا کر پہاڑوں کا سینہ چیر کر ان میں سے بیش قیمت معدنیات کوئلہ،نمک،اورمنرلز وغیرہ نکال کر دیتے ہیں بدلے میں ہم ان کو کیا دیتے ہیں۔؟چند ایک ہزار روپے اور بونس کی صورت میں گالی گلوچ مفت میں دے دیتے ہیں اور پھر دل میں کہتے ہو کہ ہم نے ان کو مزدوری دے کر ان کے خاندانوں پر احسان کیا ہے۔ارے بھائی احسان تو ان مزدوروں نے کیا ہے ہم پر جو یہ ہمیں قیمتی معدنیات نکال کر دیتے ہیں۔پاکستان میں جو یکم مئی کو عام تعطیل کا اعلان ہوتا ہے نا صرف مزدور طبقہ کو چھوڑ کر باقی سب کو چھٹی ہوتی ہے۔یہ مزدور بیچارے اپنی چھٹی والے دن بھی کام کرتے نظر آتے ہیں۔

سارہ دن کڑی دھوپ میں پسینے سے شرابور ہمارے سکون کی خاطر اپنا سکون تباہ کر کے ہمیں ہر وہ سہولت مہیا کرتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔کانوں میں یہ مزدور اپنی جان کی بازی لگا کر ہمیں قدرتی خزانہ ڈھونڈ کر دیتے ہیں دورانے کام یہ مزدور بیچارے کن مشکلات سے گزرتے ہیں یہ صرف مزدور ہی جانتے ہیں ہمیں کیا ہمیں تو ہر چیز گھر بیٹھے مل جاتی ہے۔ساری عمر سونے کی کان میں مزدوری کرتے گزار دیتے ہیں جب ان کی اپنی بیٹی کی بیدائی کا وقت آتا ہے تو سوائے پیتل کی بالیوں کے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور ہم ناجانے کیا کچھ سوچتے ہیں کہ فلاح کا باپ سونے کی کان میں کام کرتا ہے ناجانے کتنی دھن دولت کما رکھی ہوگی یہ صرف تیری اور میری سوچ ہے حقیقت یہ مزدور ہی جانتے ہیں۔

Labor

Labor

کیا ہمارا کچھ فرض نہیں بنتا کہ ہم ان کے لیے کچھ سہولیات کا بندوبست کر کے دے دیں جیسا کہ دوران کام کچھ وقت سستانے کو دے دیں، پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کر دے،دورانے کام ان کے کام کی تھوڑی حوصلہ افضائی کر دے،کہی کوئی کام غلط ہو جائے تو اس کی غلطی کو نظر انداز کر دیں۔۔؟اگر ایسا ممکن نہیں تو انسانیت کے ناتے ہی سہی ان کا زرہ سا تو احساس کرے آخر آپ بھی تو انسان ہیں ایک پل کے لیے سوچو کہ آپ ایک مزدور ہو تو آپ اپنے مالک سے کیا امید رکھو گے۔۔؟اگر کسی غریب مزدور کی دعا آپ کو لگ جاتی ہے تو آپ کی ساری زندگی سنور جائے گی۔ ہم کسی پیر فقیر پر تو لاکھوں خرچ بھی کر دیتے ہیں ان کی خدمت بھی خوب کرتے ہیں یہاں تک کے ان کے پائوں دبانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ارے بھائی اگر آپ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیتے ہیں ساتھ میں تھوڑی حوصلہ افزائی بھی کر دیتے ہیں تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس وقت اس کے منہ سے جو دعا نکلتی ہے وہ کیسے عرش تک جاتی ہے اور اللہ غریب مزدوروں کی دعائوں کو رد نہیں کرتا۔اللہ ہم سب کو مزدوروں سے اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تحریر : وقاص معین چنی گوٹھ